لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) حکومت نے سوشل میڈیا پر منافرت پھیلانے والوں کے خلاف بڑے کریک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ اس بنیاد پر رواں ہفتہ میں متعدد گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں۔ آئندہ ہفتے اس پر بڑی کارروائی ہوگی۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری کے مطابق نفرت انگیز باتوں کو عام میڈیا پر کنٹرول کر لیا گیا ہے اور ایسا طریقہ کار وضع کر لیا ہے جس سے سوشل میڈیا پر بھی نفرت انگیز تقاریر روک پائیں گے۔ پی ٹی آئی منظم انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ ڈائیلاگ بنیادی شرط ہے جو ڈیبیٹ کرتا ہے اس کے خلاف فتوے دئیے جاتے ہیں۔ کسی کو حق نہیں کہ کسی کی آزادی سلب کرے لہٰذا حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر بڑے کریک ڈاؤن کے اعلان کے بعد اس امر کا جائزہ لینا پڑے گا کہ حکومت کی ٹائمنگ کی اہمیت کیا ہے۔ سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ ممکن بن سکے گی۔ نفرت پھیلانے والوں کے مقاصد کیا ہیں اور یہ کون ہیں؟۔
بلاشبہ اس وقت ملک میں فارمل میڈیا کے بجائے انفارمل میڈیا (سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا) کی شکل میں بہت تیزی سے وسعت پذیر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں 16 کروڑ لوگ اینڈرائیڈ موبائل فون کے استعمال کنندگان ہیں۔ ٹی وی کا زمانہ ختم ہو رہا ہے اور جرنلز اور تبصروں اور تجزیوں کیلئے موبائل فون کا دور سامنے آ رہا ہے۔ تحریک انصاف پہلی جماعت تھی جس نے سوشل میڈیا کا استعمال مورچہ بنا کر کیا۔ اب اس ابھرتے ہوئے معلومات کے میڈیم (سوشل میڈیا) پر پابندیوں کی نوبت کیوں آ رہی ہے ؟ کیا ہم بھول گئے کہ یہی سوشل میڈیا تھا جس نے ملک میں مذہبی تعصب اور خصوصاً دہشت گردی کے خلاف ہماری قومی آواز کو موثر بنایا، نیشنل ایکشن پلان کو سب سے زیادہ پذیرائی خود ڈیجیٹل میڈیا پر ملی۔ ہر حکومتی اور اعلیٰ ترین عسکری جز اور معلومات کا بہترین میڈیم اب حکومتی پابندیوں کا شکار ہونے والا ہے۔ یقیناً یہ وہ روش ہے جس میں ہمارے مقاصد پورے ہوں تو واہ سبحان اﷲ! اگر تنقید اور طنز کے نشتر چبھنے لگیں تو پھر فوری پابندی اور لامحدود آزادی کا رونا اور قیدوبند کے نعرے! مجموعی طور پر یہ رو یے ہمیں ایک آزاد اور جمہوری معاشرے سے دور کر رہے ہیں۔
آزادی اظہار پر پابندیوں کا یہ ماڈل مشرق وسطیٰ روس اور سوشلسٹ چائنہ میں تو چل رہا ہے مگر پاکستان جیسے جمہوری ملک اور معاشرے میں جہاں پہلے محرومی اور سماج میں بے چینی ہے وہاں ایسی پابندیوں سے سماجی اور سیاسی گھٹن بڑھے گی۔ سوشل میڈیا پر بہت کچھ تو آجکل وہ ہے جسے ماضی میں وزیراعظم بھی بطور اپوزیشن رہنما ببانگ دہل مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ ماضی میں دہشت گردی اور پاکستانی طالبان پر ریاست کا ایک اور بیانیہ تھا مگر عمران خان کا موقف مذاکرات کا مطالبہ تھا تو اس وقت بھی طاقتور حلقوں نے اس باوقار اختلاف کو برداشت کیا مگر اب ایسا کیا ہو گیا کہ خود عمران خان حکومت اختلاف رائے کا گلا گھونٹنے چلی ہے ؟ یقیناً یہ تمام سٹیک ہولڈرز کیلئے تحمل اور صدق دل سے دوبارہ سوچنے کا مقام ہے کہ اختلاف رائے کیا کبھی باوقار انداز میں کیا جائے اور اسے برداشت بھی جمہوری انداز میں کیا جائے۔ پابندی کے بجائے اصلاحات کا پہلو سیاسی اختلاف رائے کرنے والوں پر ضرور لاگو ہونا چاہئے۔