لاہور: (روزنامہ دنیا ) پاکستان اور بھارت میں یقیناَ کشیدگی بڑھی ہوئی ہے کیونکہ کشیدگی بڑھانا، پاکستان پر الزام لگانا اور کشمیر کی مقامی تحریک سے توجہ ہٹانا، یہ باتیں بھارت میں انتخابی مہم اور ان کی فارن ڈپلومیسی کے لیے موافق ہیں وہ مقبوضہ کشمیر کے اندر مقامی تحریک آزادی سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں، اس لئے وہ الزام بھی لگائیں گے اور واویلا بھی مچائیں گے لیکن میرا سوال یہ ہے کہ 12 ہزار کشمیری خواتین کا ریپ کیا گیا اس کا مجرم کون ہے ؟ پیلٹ گنز کی وجہ سے 400 بچوں، بوڑھوں اور خواتین کی آنکھیں ضائع ہوئیں، وہ کہاں سے انصاف مانگیں ؟ تقریباً ایک لاکھ کشمیر ی جو وہ شہید کر چکے ہیں، کیا وہ مسعود اظہر نے بھیجے ہوئے تھے ؟ کیا وہ مقبوضہ کشمیر کے شہری نہیں تھے ؟۔
کیا جیش محمد اتنی بڑی تنظیم ہے کہ جس نے ساڑھے 7 لاکھ بھارتی فوج کو آگے لگا رکھا ہے، یہ صرف ایک پروپیگنڈا ہے کیونکہ وہ مقامی جدوجہد کو تسلیم نہیں کر رہے، حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ اب اس کے آگے کیا ہو سکتا ہے، بھارت کیا کر سکتا ہے، بھارت بڑی تعداد میں فوج کو حرکت میں نہیں لا سکتا کیونکہ اگر وہ فوج کو حرکت میں لائینگے تو ان کے سامنے پاکستان آرمی ہو گی اور ان کے پیچھے کشمیری ہونگے اس طرح یہ ساڑھے 7 لاکھ فوج، کشمیر میں جنگی قیدی بنے گی۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ جنگ شروع کرنا آسان ہوتا ہے مگر اس کو ریگولیٹ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جنگ شروع ہوتی ہے اور پھر اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔ مکمل جنگ میں یہ بھی عین ممکن ہے کہ بات نیوکلیئر ہتھیاروں تک پہنچ جائے لہذا اتنی بڑی حماقت بھارت نہیں کرے گا تو پھر کرے گا کیا ؟ یہ عین ممکن ہے کہ وہ پاکستان میں دہشتگردی کے دو تین بڑے واقعات کرا دے۔ اس کے خلاف ہمیں حفاظتی تدابیر کرنا ہوں گی، سرحدوں کی نگرانی بڑھانا ہوگی، خفیہ ایجنسیوں کو چوکنا رکھنا ہوگا تاکہ سوفٹ ٹارگٹ کو اس طرح کے لوگ نشانہ نہ بنا سکیں۔