لاہور: (روزنامہ دنیا) بھارتی جنگی طیاروں کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود میں دراندازی کے دو اہم پہلو ہیں، پہلا تو یہ کہ اس حرکت کے بعد بھارتی وزیر اعظم مودی اور بھارتیوں کی اکثریت خود ہی اپنا سینہ ٹھونک کر اپنے آپ کو شاباش د ے گی، دوسرا عالمی ردعمل، یورپی یونین کے صدر مقام برسلز، اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر نیو یارک اور بیجنگ کی جانب سے بھارت اور پاکستان دونوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں، یہاں تک کہ آسٹریلیا نے بھی دونوں ملکوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ہر قسم کے ( عسکری) اقدام سے گریز کریں اور دوطرفہ مذاکرات شروع کریں تاکہ خطے میں امن و سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہوجائے۔
پلوامہ واقعے کے بعد نا صرف بھارت بلکہ بڑی طاقتوں کو بھی بہت محتاط انداز میں جواب دینے اور ہر عمل اور ردعمل کا پوری باریک بینی سے پیشگی جائزہ لینا ضروری ہے۔ پاکستان کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ بھارتی طیاروں کی فضائی خلاف ورزی کو بنیاد بناتے ہوئے بھارت کو دونوں ممالک کے مابین کشیدگی میں اضافے کا ذمے دار ٹھہرا دے، 14 فروری کو پلوامہ واقعے کے فوری بعد وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کو امن کیلئے تعاون کی جو پیشکش کی تھی اس کے بعد بھارتی طیاروں کی حرکت سے عالمی سطح پر بھارت کی ساکھ پر یقینی منفی اثرات ہوں گے، یوں بھی یہ بات پاکستان کیلئے باعث شرمندگی کیسے ہوسکتی ہے کیونکہ جیٹ طیاروں کی رفتار بہت زیادہ ہوتی ہے ( میراج طیارہ 2500 کلو میٹر کی رفتار سے پرواز کرسکتا ہے ) اور کنٹرول لائن سے بالاکوٹ تک کا فاصلہ 100 کلومیٹر بھی نہیں ہے، ظاہر ہے کہ میراج طیارہ یہ فاصلہ صرف چند منٹ میں طے کرسکتا ہے، چونکہ یہ پہاڑی علاقہ ہے اس لیے اس قدر مختصر فاصلے کا فائدہ دفاع کرنے والوں کو نہیں بلکہ فضائی حدود میں گھس آنے والے تیز رفتار طیاروں کو ہوتا ہے۔ پاکستان کی فوجی ہائی کمان نے بجا طور پر بھارت کا یہ دعویٰ مسترد کر دیا کہ بھارتی طیارے تقریباً 20 منٹ تک پاکستان کی فضائی حدود میں رہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان نے بھارت پر سفارتی دباؤ ڈالنے کا راستہ منتخب کیا، اس اقدام کی بدولت پاکستان کی اخلاقی پوزیشن بہت مضبوط ہوئی کیونکہ اس طرح پاکستان نے ثابت کر دیا کہ وہ سنگین بحرانی صورتحال میں بھی سوچ سمجھ کر اقدامات کرتا ہے، اس کے باوجود اس حقیقت کی پردہ پوشی نہیں کی جاسکتی کہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردی اور اس میں ملوث عناصر سے اعلان لاتعلقی اور ان کی مذمت کے باوجود تاحال کسی ایک ملک نے بھی بھارتی طیاروں کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور پاکستانی علاقے میں ‘‘ پیشگی حملے ’’ کی مذمت نہیں کی، یہ ایک اہم بات ہے کیونکہ اس بارے میں دو آرا نہیں ہوسکتیں کہ بھارتی جیٹ طیاروں کی پاکستانی فضائی حدود کے اندر پرواز پاکستان کی خومختاری کی سنگین خلاف ورزی کے مترادف ہے، ان حالات میں پاکستان کی جانب سے اسلامی ممالک کی تنظیم سے یہ درخواست بالکل بجا ہوگی کہ وہ مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ اجلاس میں بطور ‘‘ مہمان اعزازی’’ شرکت کیلئے بھارتی وزیر خارجہ کو دی گئی دعوت پر نظرثانی کرے، اس درخواست کی ٹھوس بنیاد یہ ہے کہ بھارت او آئی سی کے ایک بانی رکن ( پاکستان) کی خود مختاری کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ پاکستانی حدود کی فضائی خلاف ورزی کا جواز پیش کرنے کیلئے بھارت امریکا کے پیش کردہ نظریے ‘‘ قبل از وقت حملہ ( Pre-emptive Strike)‘‘ کے پیچھے پناہ لینے کی کوشش کر رہا ہے لیکن بھارت اس حقیقت کو بھول گیا کہ امریکا ان تمام ممالک ( عراق، شام ، افغانستان ) سے جہاں اس نے محاذ کھولے ہوئے تھے کم از کم 14000 کلو میٹر دور تھا، اس کے برعکس پاکستان اور بھارت کے مابین تو کوئی فاصلہ ہی نہیں کیونکہ ان کی سرحدیں جڑی ہوئی ہیں، یہ بات دونوں ممالک کیلئے خطرات کا باعث بھی ہے، دونوں میں سے کوئی بھی ملک یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ دوسرا خواہ کیسی ہی مہم جوئی کرلے اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، اس لیے کہ ایک ملک کی جانب سے کسی بھی منفی کارروائی کے نتائج سے دوسرے کا متاثر ہونا یقینی ہے، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اب جبکہ بھارت نے ‘‘ پیشگی حملہ’’ کرنے کی ابتدا کر ہی دی ہے تو اسے تیار رہنا چاہیے کہ دوسرا ملک بھی کبھی ایسی ہی کارروائی کرے تو اسے قبول کرنا پڑ ے گا، اس سلسلے کو شروع کرنے کی ذمہ داری بہر صورت بھارت پر عائد ہوگی۔
اس ضمن میں چوتھا اہم پہلو یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی ایک نقطہ نظر سے پاکستان کیلئے ’’غیر متوقع نعمت ‘‘ بھی ثابت ہوئی ہے، کیونکہ ملک اس وقت شدید سیاسی محاذ آرائی کا شکار ہے ، لیکن بھارتی مہم جوئی کے نتیجے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمام سیاسی طاقتیں اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد کی خاطر یک زبان اور متحد ہوگئی ہیں، اب یہ سیاسی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ اس غیر متوقع صورتحال کو ملک کے وسیع تر مفاد میں کیسے استعمال کرتی ہے، پانچویں اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کو بہت تحمل اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اس امر کا جائزہ لینا چاہیے کہ اگر وہ بھارت کی کسی مہم جوئی کے جواب میں اسی طرح کا عمل کرے یا عام الفاظ میں منہ توڑ جواب دے تو اس سے پاکستان کی معیشت پر کیا اثرات ہوں گے ؟ اس لیے فہم و دانش کا تقاضا ہے کہ اگر ایک ملک کی جانب سے دیوانگی کا مظاہرہ کیا جائے تو دوسرے کو چاہیے کہ وہ دور اندیشی کی راہ اختیار کرے۔
اس معاملے میں آخری بات یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ چین، امریکا، ترکی اور روس کے سربراہان سے براہ راست رابطہ کر کے خطے کی تازہ ترین صورتحال سے انہیں خود آگاہ کریں، عالمی سربراہوں کے ساتھ عمران خان کی براہ راست گفتگو سے پاکستان کے بارے میں عالمی ذرائع ابلاغ پر بھی اچھے اثرات ہوں گے اور وہ پاکستان کی نسبتاً بہتر تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں گے۔