لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) بھارت کی جانب سے پلوامہ واقعہ کو بنیاد بناتے ہوئے پاکستان کے خلاف الزام تراشی اور ہرزہ سرائی کا عالمی، علاقائی اور سیاسی محاذ پر اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں پر ہونیوالا ظلم اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں اجاگر ہوئیں۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں وزیراعظم عمران خان، قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف اور دیگر نے بھی جہاں اتحاد و یکجہتی کا اظہار کیا وہاں کشیدگی کی بنیاد مسئلہ کشمیر کو قرار دیتے ہوئے اس پر بھارت کی روایتی ضد، ہٹ دھرمی اور نہتے کشمیریوں کے خلاف طاقت کے بے پناہ استعمال پر اسے بے نقاب کرتے ہوئے عالمی برادری کی توجہ اس جانب مبذول کرائی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پلوامہ واقعہ کے بعد پیدا شدہ کشیدگی بڑا مسئلہ ہے یا مسئلہ کشمیر مسائل کی بنیاد ہے اور آخر بھارت کیونکر مسئلہ کے پائیدار اور منصفانہ حل پر پیش رفت سے انکاری ہے ؟ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر کیونکر نہیں آنا چاہتا ؟ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے حوالے سے عالمی قوتیں اپنا کردار کیونکر ادا نہیں کر رہیں ؟ اور کیا نئی پیدا شدہ صورتحال میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی مسئلہ کشمیر پر کوئی پیش رفت ہو سکتی ہے ؟ حقیقت حال کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت بات جو سامنے آ رہی ہے وہ مقبوضہ وادی میں پیدا شدہ صورتحال ہے جس نے بھارت کو پریشان کر رکھا ہے۔ طاقت کے بے بہا استعمال کے باوجود کشمیریوں کی آواز تھمنے کی بجائے توانا ہوئی ہے جبکہ بھارتی ریاست کشمیریوں کے عزم و ہمت کے سامنے لرز رہی ہے لیکن ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ پلوامہ واقعہ کے بعد بھی بھارت نے اپنے روایتی انداز میں کسی ابتدائی تحقیقات کا انتظار کئے بغیر پاکستان کے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیا اور مودی نے حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیار کرنے کی بجائے بڑھک بازی شروع کی۔ پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکی دی اور پھر بوکھلاہٹ میں ایسی جارحیت کا ارتکاب کر ڈالا جو ان کے گلے پڑ گئی۔
نریندر مودی کی حکمت عملی نے بھارتی فوج کی طاقت کا پول بھی کھول دیا اور اب تک صورتحال یہ ہے کہ نریندر مودی کو بین الاقوامی تائید و حمایت بھی نہیں ملی اور خود بھارت کے اندر بھی وہ تماشہ بن گئے۔ ان کے مخالفین اور رائے عامہ کے رہنما ان کی پالیسیوں کو ٹارگٹ کرتے نظر آ رہے ہیں جبکہ مودی نے بھارت کو بارود کے ڈھیر پر لا کھڑا کیا ہے۔ مسائل کے سیاسی حل کی بجائے طاقت کے استعمال کے ذریعے جو حکمت عملی اختیار کی گئی اس نے بھارتی ریاست کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا۔ اب عالمی برادری کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور ہندوستان کے اپنے مفاد میں یہی ہے کہ کشمیریوں کیساتھ بیٹھ کر بات کی جائے۔ بھارت پاکستان کیساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کو تیار کیوں نہیں اس کی بڑی وجہ بھی کشمیر ہے کیونکہ اس مسئلہ کے بنیادی فریق کے طور پر پاکستان کے پاس تو کہنے کو بہت کچھ ہے، مگر بھارت کیا کہے گا۔ جنوبی ایشیا کا نیوکلیئر فلیش پوائنٹ کشمیر ہے اسے حل کرنا ہوگا مسئلہ کشمیر پر موثر پیشرفت کے بغیر کشیدگی کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہے۔
ایک وقت تھا کہ امریکی انتخابات میں جنوبی ایشیا میں مسئلہ کشمیر کو سلگتے مسئلہ کے طور پر لیا جاتا تھا مگر آج کی امریکی قیادت اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال کر کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی مرتکب ہوئی ہے۔ لہٰذا نئی پیدا شدہ صورتحال میں گیند عالمی برادری کے کورٹ میں ہے۔ پاک بھارت کشیدگی اور تناؤ کا خاتمہ ممکن بن سکتا ہے لیکن اس وقت تک مستقل کشمکش ختم نہیں ہو گی جب تک مسئلہ کشمیر پر کوئی پیش رفت نہیں ہوتی۔ کیونکہ کشمیری بھارتی تسلط کو قبول کرنے کو تیار نہیں، انہیں اپنے مستقبل کے فیصلہ کا حق ملنا چاہئے۔ اسرائیلی طرز پر انتہا پسند ہندوؤں کی بستیاں بسانے کا بھارتی خواب بھی حقیقت نہیں بن رہا آج کشمیر کا بچہ بچہ، کشمیر کا چپہ چپہ آزادی کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ یہ خود بھارت کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ اپنی پالیسی پر اصرار ترک کرے، تنازع کشمیر کا حل عوامی خواہشات کے مطابق نکالا جائے، یہ نہ صرف کشمیریوں کے لیے بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے ایک نئی صبح کا آغاز ہوگا۔