تحریک کیلئے اپوزیشن جماعتوں کو اپنے اندر یکسوئی پیداکرنا ہوگی

Last Updated On 17 May,2019 08:42 am

لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) اپوزیشن جماعتوں کی لیڈر شپ کی جانب سے ملک کو در پیش معاشی مسائل خصوصاً مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے خلاف احتجاجی تحریک کے اعلانات شروع ہو چکے ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ کیا سیاسی جماعتیں خصوصاً مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی و دیگر کسی بڑی احتجاجی تحریک کی پوزیشن میں ہیں اور کیا عوامی سطح پر حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ مسائل زدہ عوام سڑکوں پر نکلیں۔ مہنگائی، بے روزگاری کے ایشو پر احتجاجی تحریک کے اصل مقاصد کیا ہوں گے ۔ حکومت کی جوابی حکمت عملی کیا ہوگی؟۔

زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ عوام کو وزیراعظم عمران خان کی حکومت سے جتنی توقعات تھیں، اتنی ہی حکومت کی کارکردگی کے باعث مایوسی ہوئی۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری کے رجحان نے عوام کا جینا اجیرن بنا رکھا ہے۔ آئے روز ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور روپے کی بے توقیری کے عمل نے مہنگائی زدہ عوام کی قوت خرید کو بری طرح متاثر کیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ منتخب حکومتیں جنہیں عوام کے زخموں پر مرہم رکھنا ہوتا ہے، عوام کے اندر امید، آس اور حوصلہ پیدا کرنا ہوتا ہے وہ اس سے صرف نظر برتتی ہوئی انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مہنگائی کی دہائی نے حکومت کی مقبولیت کو بری طرح متاثر کیا اور الٹا حکومتی ذمہ داران اپنے بیانات کے ذریعے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ عوام کیلئے فوری ریلیف کا کوئی امکان نہیں، جس سے لوگوں کی توقعات ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ حکومت کے اندر ایسا عنصر ضرور موجود ہے جو قیادت اور ذمہ داران کو حقیقت حال سے آگاہ نہیں کر پا رہا اور جس کی وجہ سے حکومت اور عوام کے درمیان فاصلہ پیدا ہو رہا ہے۔ اس میں کوئی دو آراء نہیں ہے کہ مہنگائی کے رجحان کے خلاف عوام کے اندر رد عمل موجود ہے۔ وہ حکومت کو کوستے نظر آتے ہیں لیکن ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ عوام کسی ایسی احتجاجی تحریک کا حصہ بنیں جس کا مقصد حکومت سے نجات ہو البتہ اس حوالے سے دو آراء نہیں ہے کہ عوام کو فی الحال حکومتی پالیسیوں سے تکلیف تو ملی ہے مگر ریلیف نہیں ملا۔

جہاں تک اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے احتجاجی تحریک کا سوال ہے تو فی الحال انہیں دعوے ہی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ بری طرح سے مقدمات میں الجھی ہوئی ہے اور انہیں خاطر خواہ ریلیف ملنے کی کوئی توقع نہیں۔ لہٰذا لیڈر شپ تو چاہے گی کہ عوامی اور سیاسی سطح پر ایسی صورتحال طاری ہو جس کے نتیجہ میں حکومت پھنسے اور ان کیلئے کوئی راستہ بنے۔ لیکن اگر دونوں جماعتوں کی اندرونی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ پارٹیوں کے اندر حکومتی پالیسیوں کے حوالے سے رد عمل تو موجود ہے مگر اسے کسی بڑی احتجاجی تحریک کے حوالے سے تیاری قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پارٹی کے ذمہ داران ابھی سڑکوں پر آنے کے بجائے فی الحال منتخب ایوانوں اور میڈیا کے پلیٹ فارم کو ہی حکومت پر دباؤ کیلئے بروئے کار لانا چاہتے ہیں۔

البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پارٹی لیڈر شپ کی جانب سے احتجاجی تحریک کے اعلانات کے بعد سیاسی جماعتوں نے ہوم ورک ضرور شروع کیا ہے۔ مسلم لیگ ن کو ایسے ہی تنظیم سازی کا خیال نہیں آیا۔ عید الفطر کے بعد پارٹی کی سطح پر ڈویژنل تنظیمی کنونشنز کا انعقاد ضرور زیر غور ہے کیونکہ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو احتجاجی تحریکیں تب کامیاب ہوتی ہیں جب پارٹیوں کے اندر بھی تحریک ہو اور عوام الناس بھی اپنے مسائل اور مشکلات کی بنا پر اسکا حصہ بننے کو تیار ہوں اور سب سے اہم بات یہ کہ عوام کو یہ بھی یقین ہونا چاہئے کہ وہ جس سیاسی قیادت اور جماعت کے لئے میدان میں آ رہے ہیں وہ ان کے کاز کے ساتھ مخلص بھی ہے یا نہیں۔ یہ دو طرفہ تحریک جذبہ اور ولولہ ہوتا ہے جس کی بناء پر بڑ ی احتجاجی تحریک برپا ہوتی ہے۔

ابھی تک جہاں خود حکمران جماعت اور حکومتی اقدامات پر رد عمل ہے تو خود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی عوام دوستی کے حوالے سے یکسوئی نہیں۔ کسی بڑی احتجاجی تحریک کے لئے پہلے خود اپوزیشن جماعتوں کو اپنے اندر یکسوئی اور سنجیدگی طاری کرنا ہوگی۔ تحریک کے مقاصد پر عوام کو اعتماد میں لینا ہوگا اور خود جب پارٹی کے ذمہ داران، کارکن اور اراکین اسمبلی میدان میں اتریں گے تو پھر مسائل زدہ عوام ادھر کا رخ کریں گے۔ جہاں تک مذکورہ صورتحال میں خود حکومت کی حکمت عملی کا سوال ہے تو پہلے تو خود حکومت کو اس امر کا جائزہ لینا ہوگا کہ آخر وہ کونسی وجوہات ہیں کہ ان کی حکومت کا ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا اور ملک میں احتجاج اور احتجاجی تحریکوں کی بات ہو رہی ہے یہ سب کچھ خود حکومتی کارکردگی کے حوالے سے ہو رہا ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت اپنی ناکامی قبول کرنے کے بجائے سابق حکومتوں پر ملبہ ڈال کر سرخرو ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن یہ عمل اب اور چلنے والا نہیں۔ کیونکہ جیسی بھی صورتحال ہے اسے درست کرنے کی ذمہ داری انکی ہے۔ لوگوں نے اس حالات میں بہتری کا مینڈیٹ دیا ہے۔

اصل کام حکومت کا ہے جب تک لوگوں کو معاشی ریلیف نہیں ملے گا آہ و پکار ختم نہیں ہوگی اس وقت تک تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید کا سلسلہ نہیں رکے گا، اب تو خود تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی اور کارکن بھی یہ اعتراف کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ ان کی حکومت معاشی محاذ پر ناکام ہے اور آنے والے حالات میں اچھے کی توقع کم ہے۔ لہٰذا بال حکومت کی کورٹ میں ہے اور انہیں اپنی اب تک کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہوگا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ عوام کے اندر مایوسی ، بد دلی اور ملک میں بے چینی اور بے یقینی ہے اور اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ان کی عدم کارکردگی کے باوجود لوگ اپوزیشن کی اپیلوں پر کان نہیں دھریں گے اور احتجاجی تحریک نہیں بن پائے گی تو انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ عوام کے اندر رد عمل اور خصوصاً بھوک، غربت سڑکوں پر آ کر ناچنا شروع کر دے تو پھر اس رد عمل کے آگے بند باندھنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ لہٰذا اپوزیشن کی تحریک کا انتظار کرنے کے بجائے عوام کے اندر بے چینی اور رد عمل کا علاج کریں۔