اسلام آباد: (دنیا نیوز، روزنامہ دنیا) ذرائع کے مطابق سزا یافتہ دو فوجی افسران اور ایک سول افسر کو گزشتہ روز جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر ان افسران کو باہر بھجوانے کی افواہوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ کیس کے دوران یہ افسران مسلسل حراست میں رہے۔ سزا یافتہ دو فوجی افسران اور ایک سول افسر کو گزشتہ روز جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو فوجی اور ایک سول افسر کیخلاف جاسوسی کا الزام ثابت ہونے پر قید اور پھانسی کی سزاؤں کی توثیق کر دی تھی۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال کو 14 سال قید بامشقت، بریگیڈیئر (ر) راجا رضوان اور حساس آرگنائزیشن کے افسر ڈاکٹر وسیم اکرم کو سزائے موت سنائی گئی۔
یہ افسر غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کو حساس معلومات فراہم کرنے میں ملوث تھے، ان پر جاسوسی کا الزام ثابت ہوا جس کے بعد انہیں سزائیں دی گئی ہیں۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ہدایت پر ان کا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کیا گیا۔ تینوں افسروں کا آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: جاسوسی کا الزام ثابت:آرمی چیف نے 2فوجی افسران کی سزاؤں کی توثیق کردی
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوج نے جو کہا کر دکھایا، احتساب ایسا ہونا چاہیے جو نظر آئے۔ فوج کے افسر چاہے کسی بھی رینک کے ہوں، احتساب کے دائرے میں یکساں شامل ہیں۔
اسد درانی کا احتساب بھی اسی پالیسی کے تحت عمل میں آیا۔ آئندہ بھی یکساں احتساب کی پالیسی پر سختی سے عمل ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: مسلح افواج میں احتساب کا سخت نظام موجود ہے: ڈی جی آئی ایس پی آر
کہا جا رہا ہے کہ صرف دو سال میں تقریباً 400 پاک فوج کے افسروں کو مختلف جرائم میں سزائیں ہوئی ہیں۔ ان سزاﺅں میں احتیاط کرنیکی ہدایت، انتباہ، سرزنش، مراعات میں کٹوتی، تنخواہ میں کٹوتی، برطرفی، حتیٰ کہ جیل بھیجنے کی سزا بھی شامل ہے۔
اس میں ہر رینک کا افسر شامل ہے۔ جاسوسی، رشوت یا منی لانڈرنگ سے حاصل کردہ پیسہ کرپشن ہے۔ مسلح افواج میں کسی کیلئے معافی ہے نہ رعایت، بلا امتیاز ہر ایک کا احتساب ہو سکتا ہے۔
علاوہ ازیں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ پاک فوج میں احتساب کے موثر نظام پر عمل کیا جاتا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کیسز کو نمٹانا اس بات کا مظہر ہے۔ تین مختلف درجوں کے کیسز میں افسروں کو ان کے جرم کے مطابق زیادہ سے زیادہ سخت سزا دی گئی۔