لاہور: (دنیا کامران خان کے ساتھ) ملک میں سینکڑوں ٹن سونا موجود ہے لیکن ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں اس کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی حالانکہ اس سے سرکاری خزانے میں بڑی رقم آسکتی تھی۔ ورلڈ گولڈ کونسل جو ایک مستند عالمی ادارہ ہے کے دس سالہ اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں سونے کی سالانہ کھپت 180 ٹن ہے جس کی عالمی منڈی میں مالیت تقریباً 12 ارب ڈالر ہے یہ سونا ہم درآمد نہیں کرتے، کہا جاتا ہے کہ یہ سونا سمگلنگ کے ذریعے آتا ہے اور نقد ادائیگی کی شکل میں غیر دستاویزی خریدو فروخت ہوتی ہے، سارا معاملہ بالکل غیر دستاویزی ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان میں 7 سے 8 ارب ڈالر سالانہ کے ہیرے جواہرات اور قیمتی پتھر بھی ٹیکس نیٹ کے بغیر فروخت ہوتے ہیں، صرافہ بازار کے بیوپاریوں کے مطابق پاکستان میں 22 ہزار جیولرز ہیں، مگر صرف 60 جیولرز سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں، 21 ہزار 940 جیولرز سالانہ 50 لاکھ روپے سے کم کاروبار کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ وہ روزانہ 14 ہزار روپے سے کم کا بزنس کرتے ہیں، یہ آفیشل پوزیشن ہے لیکن اگر جیولرز کی دکانوں، جگمگاتے شو رومز، کاریگر اور کرائے دیکھیں تو آنکھیں کھلی رہ جائینگی، یہ ایک گھمبیر صورتحال ہے یہ صرف ایک سال کے ٹرن اوور کی بات ہے، اگر ملک میں گھروں اور دکانوں میں جو سونا موجود ہے اس کا اندازہ لگایا جائے تو یہ ایک ہزار ٹن بنتا ہے گویا کہ 100 ارب ڈالر (157 کھرب روپے) سے زیادہ کا سونا موجود ہے اور اس تمام سونے کو اس ایمنسٹی سکیم سے باہر رکھا گیا ہے۔
حکومت کی قانونی پوزیشن یہ ہے کہ یہ سارا سونا جس کے پاس بھی ہے ڈکلیئر نہیں کرسکتے تو پھر کیا کرے ؟ حکام نے جواب دیا کہ سونا بیچ دیں اور روپے کو ڈکلیئر کر دیجئے گویا حکومت یہ چاہتی ہے کہ پاکستان کا تمام سونا 30 جون سے پہلے فروخت ہو جائے، اس کا کیش آجائے اور اس پر ایمنسٹی ڈکلیئر کر دی جائے، یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اتنے بڑے حصے کو سکیم سے باہر رکھ دیا گیا ہے، اب ایمنسٹی سکیم کس طرح کایا پلٹ سکتی ہے جبکہ پاکستان کے اندر موجود 100 ارب ڈالر کے سونے، جیولری اور جواہرات کیلئے کوئی پلان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دیگر منقولہ پراپرٹی کیلئے سکیم میں کوئی منصوبہ نہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں سینکڑوں ایسی گاڑیاں موجود ہیں جو بے نامی ہیں۔ لوگوں کی اپنی جائیداد ہے مگر انہوں نے اپنے نام سے نہیں رکھی آج وہ ڈکلیئر کرنا چاہیں تو اس ایمنسٹی سکیم میں اس کیلئے گنجائش نہیں۔
ماہرین کے مطابق 50 سے 70 ہزار گاڑیاں ایسی ہیں جو لوگ ایمنسٹی سکیم کیلئے ڈکلیئر کرنا چاہتے ہیں، خیال کیا جاتا ہے اس سے اربوں روپے حاصل ہوسکتے ہیں، پچھلی ایمنسٹی سکیم میں 24 ہزار بے نامی گاڑیاں ڈکلیئر ہوئی تھیں اور حکومت کو 10 ارب روپے کی ٹیکس آمدن ہوئی تھی۔ آج سے پہلے پاکستان میں نان فائلر کو یہ قانونی اختیار تھا کہ وہ سٹاک مارکیٹ میں شیئرز خرید سکتا ہے، اب اس سکیم میں ان نان فائلر شیئر ہولڈرز کیلئے بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایک اور منافع بخش طریقہ کار پرائزبانڈ رہا ہے لیکن ایمنسٹی سکیم کا پرائز بانڈز پر بھی اطلاق نہیں ہوتا۔ سٹیٹ بینک کے مطابق مارچ 2019 تک عوام نے 342 ارب روپے کے پرائز بانڈز خریدے تھے یہ ہیں وہ کلیدی معاملات جو اس ایمنسٹی سکیم میں شامل نہیں ہیں، اگر ان معاملات کیلئے سکیم میں کوریج موجود ہو تو یہ گیم چینجر ثابت ہوسکتی ہے۔
دوسری جانب چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے کہا ایمنسٹی سکیم نہ لینے والا 30 جون کے بعد پچھتائے گا۔ انہوں نے کہا ایمنسٹی سکیم کی تاریخ میں 30 جون کے بعد توسیع نہیں ہوگی۔ شبر زیدی نے کہا سٹاک ان ٹریڈ سونا اور ہیرے جواہرات ایمنسٹی سکیم کے دائرے میں شامل ہیں، آج اس کی تحریری وضاحت کر دی جائے گی، تاہم جو سونا گھروں میں موجود ہے وہ اس قانون کے اندر شامل نہیں۔ انہوں نے کہا جو آدمی ایمنسٹی ڈکلیئر کرے گا اس کی کوئی انکوائری کسی جگہ نہیں ہوسکتی۔ سمگل شدہ گاڑیوں کیلئے ایمنسٹی نہیں ہے جو گاڑی رجسٹرڈ اور بے نامی ہے وہ ایمنسٹی لے سکتی ہے۔