کلبھوشن یادو، لٹکے گا یا بچ نکلے گا؟

Last Updated On 17 July,2019 01:11 pm

لاہور: (صہیب مرغوب، روزنامہ دنیا) کلبھوشن سدھیر یادو، بلوچستان میں رنگے ہاتھوں جاسوسی کرتے ہوئے 3 مارچ 2016ء کو ایک آپریشن میں گرفتار ہو گیا۔ اسے چمن کے قریب حراست میں لیا گیا۔ کلبھوشن یادو نے گرفتاری کے بعد بھارتی خفیہ ادارے را سے بھی وابستگی کا اعلان کیا۔ اس نے کراچی اور بلوچستان میں خفیہ تخریب کاری کا بھی اعتراف کیا۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارتی بحریہ کا حاضر سروس جوان کلبھوشن سدھیر یادو گرفتاری کے وقت را کے لئے کام کر رہا تھا۔ 2003ء سے وہ جاسوسی کے نیٹ ورک سے جڑا ہوا تھا۔ اس کے قبضے سے اسی نام کے ساتھ کئی جعلی دستاویزات بھی برآمد ہوئیں جن میں 2003ء میں تیار کردہ جعلی پاسپورٹ نمبر L9630722 بھی شامل تھا۔

جعلی پاسپورٹ پر اس کا نام حسین مبارک پٹیل اور تاریخ پیدائش 30 اگست 1968ء درج تھی۔ پاسپورٹ کے مطابق اس کی جنم بھومی مہاراشٹرا میں ہے۔ یہ طاقتور فنی ثبوت کبھی بھارت نے مسترد نہیں کئے۔ اس کے ماتھے پر محراب بھی بنی تھی۔ خود کو مسلمان ظاہر کرنے کیلئے بھارت میں ہی کسی ماہر ڈاکٹرسے بنوائی تھی۔ ’’پلاسٹک سرجری‘‘ بھی کروائی ہو گی۔ جاسوسی کا نیٹ ورک چلاتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا جانے والا حاضر سروس بھارتی بحریہ کا افسر تھا۔

گرفتاری کے وقت اس کا لیپ ٹاپ بھی پاکستانی انٹینوں کے ذریعے کام کر رہا تھا۔ پاکستانی ادارے اس کے فون کی مانیٹرنگ کر رہے تھے، وہ مزے سے اپنے خاندان کے ساتھ مراٹھی زبان میں ہیلو ہائے کر رہا تھا۔ اس نے 2013ء سے ہی تخریب کاری کی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ اس وقت کے وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کے مطابق وہ انتہا پسندوں سے رابطے میں تھا، بلوچستان میں فرقہ پسندی اسی نے پھیلائی۔ کراچی میں بے چینی کا ذمہ دار بھی وہی تھا، وہ علیحدگی پسندوں کو تربیت دیتا رہا اور اس کا مقصد گوادر اور کراچی کی بندرگاہوں کو تخریب کاری کے ذریعے نقصان پہنچانا تھا۔ دوران تفتیش اس نے فنڈنگ کی تفصیلات اور ذریعے کا بھی اعتراف کیا۔

معلوم ہوا کہ 16اپریل 1970ء کو پیدا ہونے والا کلبھوشن یادو 1987ء میں بھارتی فوج میں بھرتی ہو گیا، 1991ء میں بحریہ میں کمیشن حاصل کر لیا۔ 14 سالہ سروس کے بعد 2003ء میں اسے خفیہ سروس میں ٹرانسفر کر دیا گیا۔ اس کا ٹھکانہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار تھی۔ وہاں قیام کے دوران اس نے کراچی اور بلوچستان کے کئی خفیہ دورے کئے۔ جس کا اعتراف اس کے اقبالی بیان میں موجود ہے۔ کمانڈر رینک کے اس افسر نے گرفتاری کے بعد اپنے گناہوں پر پردہ نہیں ڈالا بلکہ انہیں مان گیا۔ وہ 14سال سے جاسوسی اور تخریب کاری میں ملوث تھا۔ اسی لئے اس کی گرفتاری کے بعد تخریب کاری اور دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ۔

ابتدائی طور پر بعض بھارتی خبر رساں ادارے آئیں بائیں شائیں کرتے رہے۔ بھارتی حکمرانوں کو کافی ساری پریشانیاں لاحق تھیں۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ اس کے لیپ ٹاپ سے پاکستان کو کیا ملا؟ حراست کے وقت وہ کس مقام پر تھا، کس سے رابطے میں تھا، گرفتاری کس کی اطلاع پر ہوئی؟ پاکستان کلبھوشن یادو کے بارے میں کیا کچھ جانتا ہے؟ دیگر ذرائع سے بھارتی حکومت یہ اور ایسے بہت سے سوالات کے جوابات تلاش کرتی رہی۔

را کے سابق چیف وکرم سود نے کہا کہ کسی آدمی کو پاسپورٹ سمیت گرفتار نہیں کیا گیا ،الزامات مضحکہ خیز ہیں۔ بعض اخبارات نے یہ بھی لکھا کہ اسے ایران میں طالبان نے اغوا کیا اور پاکستان کو فروخت کر دیا، اس قسم کی خبریں مختلف ذرائع سے جاری کروائی گئیں۔ اگر یہ بات درست مان لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ طالبان ایران میں کام کر رہے ہیں اوران کا گروپ ایران میں اس قدر متحرک اور مؤثر ہے کہ کلبھوشن جیسے فوجی ایجنٹوں کو بھی اغوا کر سکتا ہے اور یہ کہ طالبان کی رسائی ایران کے انتہائی اندرونی حصوں میں بھی ہے۔ ایرانی ذرائع نے اس قسم کی اطلاعات کی تردید کی۔

جرمن سفارت کار گنٹر ملک ( Gunter Mulack ) نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز سے خطاب کے دوران اسی قسم کی بات کو دہرایا تھا۔ تاہم بعد میں انہوں نے ٹائمز آف انڈیا کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ ان کے ذرائع مصدقہ تھے مگر معلومات غیر مصدقہ ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں ان کی تردید یا تصدیق نہیں کرسکتا۔ ہو سکتا ہے یہ درست نہ ہوں‘‘۔

اس کے اقبالی بیان کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت نے جاسوسی کا نیٹ ورک چلانے پر اسے 10اپریل 2017ء کو سزائے موت سنا دی۔ بھارت 18 مئی 2017ء کو عالمی عدالت انصاف سے سزائے موت کے خلاف عبوری حکم امتناعی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ عالمی عدالت میں بھارت نے اسی مؤقف کا اعادہ کیا کہ کلبھوشن کو پاکستان نے ایرانی سرحد سے گرفتار کیا مگر اپنے دلائل کے حق میں کسی قسم کی فوٹیج یا کوئی تکنیکی ثبوت پیش نہ کر سکا۔ البتہ بھارت نے اسے سابق افسر مان لیا۔

سابق بھارتی وزیر خارجہ نے یادو کے بحریہ سے سابقہ تعلق کا اعتراف کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ بھارت کے مطابق اسے ایک تنظیم نے گرفتار کر کے پاکستان کے حوالے کیا تھا جبکہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایران میں کارگو سروس کا دھندہ کرتا ہے۔ اس لیے اس کا بندرعباس، چاہ بہار آنا جانا لگا رہتا ہے۔ اس کے برعکس بھارتی صحافی حسین زیدی نے شواہد کی بنیاد پر تسلیم کیا کہ یادو بھارتی جاسوس ہے جسے پاکستان نے خفیہ معلومات کی بنا پر حراست میں لیا۔

گرفتاری کے بعد اپریل 2016ء میں پاکستان نے غیر ملکی سفارت کاروں کو بریفنگ دی۔ امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ انتہائی اہم شواہد کا تبادلہ کیا گیا۔ ایرانی سفیر کے ساتھ بھی اجلاس منعقد ہوا۔ کلبھوشن کے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کا ایک ڈوزئیر بھی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے حوالے کیا گیا۔ جس میں اقبالی بیانات بھی شامل تھے۔

اس کی خبر 13اپریل 2017ء کے اخبارات میں شائع ہوئی۔ پھر بھی بھارت عالمی سطح پر ہلچل پیدا کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ ایرانی رہنما حسن روحانی نے اسلام آباد کا دورہ کیا، اس موقع پر 3 اپریل کو دونوں ممالک کے رہنمائوں کے مابین بات چیت ہوئی۔ حسن روحانی نے کلبھوشن کے معاملے پر کسی بھی بات چیت کی تردید کی البتہ بھارت میں ایرانی سفیر غلام رضا انصاری نے بتایا کہ معاملے کی جانچ کی جارہی ہے۔

پاکستان نے بھارت سے یادو کا فون ریکارڈ اور بینک معلومات طلب کیں لیکن اس نے پاسپورٹ یا اکائونٹس کے بارے میں کچھ نہ بتایا۔ 8 مئی 2017ء کو بھارت یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لے گیا۔ پہلی سماعت 15مئی کو ہوئی، بھارت کی جانب سے ہریش سالوے اور پاکستان کی جانب سے خاور قریشی نے مؤقف پیش کیا۔9 مئی 2017ء کو عالمی عدالت انصاف نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں اس نے پاکستان میں زیر حراست بھارتی شہری کی نظربندی کا معاملہ اٹھایا اور اسے قونصلر رسائی نہ ملنے پر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی قرار دیا۔

پاکستانی عدالت نے اسے سزائے موت سنائی۔ بھارت نے لکھا کہ پاکستان نے ملزم کو طویل نظر بندی میں رکھا اور اسے اس کے حقوق مہیا نہیں کیے اور قونصلر رسائی سے انکار کر کے اس نے ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے۔ بھارت کو کلبھوشن کی سزائے موت کا پتہ پریس ریلیز سے چلا۔ بھارت نے یہ اطلاع دی کہ کلبھوشن کو ایران سے گرفتار کیاگیا ہے جہاں وہ بھارتی بحریہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ذاتی بزنس چلا رہا ہے جبکہ اس کی گرفتاری بلوچستان میں ڈالی اور بھارت کو 25 مارچ 2016ء کو گرفتاری سے آگاہ کیا۔

23 جنوری 2017ء کو پاکستان نے کلبھوشن یادو کے خلاف پاکستان میں جاسوسی اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کے لئے تفتیش میں مدد مانگ لی۔ اس موقع پر پاکستان نے 21 مارچ کو قونصلر رسائی کا جواب بھی دیا اور اسے تفتیش میں امداد سے مشروط کر دیا۔ بھارت نے اس شرط کو ویانا کنونشن کی خلاف ورزی قرار دیا۔ بھارت نے دو ریلیف کے لئے استدعا کی۔ ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36 کے پیرا گراف ون بی کے مطابق سزائے موت کو ختم کیا جائے، پاکستان سے کہا جائے کہ وہ سزائے موت ختم کرے اور پاکستان اگر ایسا نہیں کر سکتا تو عالمی عدالت انصاف اسے عالمی معاہدوں اور حقوق کی خلاف ورزی سمجھتے ہوئے فیصلے کو منسوخ کرے۔ عالمی عدالت بھارتی شہری کی رہائی کا حکم جاری کرے۔

18مئی 2017ء کو عالمی عدالت نے پاکستان کو فیصلے تک سزائے موت دینے سے روک دیا۔ عدالت اپنے دائرہ کار کو برقرار رکھتے ہوئے آرٹیکل 36 کے پیراگراف 1 کے مطابق ویانا کنونشن کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کرے گی۔ بھارت نے آرٹیکل 41کے تحت قونصلر تک رسائی نہ دینے کا معاملہ پھر اٹھایا اور سزائے موت پر عمل درآمد سے روکنے کی درخواست کی جس پر عالمی عدالت انصاف نے حکم دیا کہ زیر بحث کیس کے حتمی فیصلے تک مندرجہ ذیل اقدامات کئے جائیں

1۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کلبھوشن سدھیر یادو کو پھانسی نہ دینے سے متعلق تمام ضروری اقداما ت کرے گی۔
2۔ مذکورہ بالا فیصلے پر عمل درآمد کے لئے اٹھائے گئے اقدامات سے حکومت پاکستان عالمی عدالت انصاف کو آگاہ کرے گی۔
3۔ عالمی عدالت انصاف میرٹ کی بنیاد پر جو فیصلہ صادر کرے گی حکومت پاکستان اس کے منافی کوئی اقدام نہیں کرے گا۔

آج عالمی عدالت فیصلہ سنانے والی ہے۔ کسی کو اس فیصلے کا علم نہیں ہے مگر عالمی عدالت میں پیش ہونے والے دلائل اور دیگر باتوں سے ہم اپنے قارئین کو آگاہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ عالمی عدالت کا فیصلہ کیا ہوگا، حقائق کیا ہیں، ویانا کنونشن میں کیا لکھا ہے، بھارت کے دلائل پاکستان کا جواب کیا ہے، ان امور کا جائزہ لیں گے۔

بھارت نے عالمی عدالت کو کیا بتایا؟

3مارچ 2016ء کو بھارتی شہری کلبھوشن کو مبینہ طور پر حراست میں لیا۔ 25 مارچ 2016ء کو بھارت کو کلبھوشن یادوکی گرفتاری کی اطلاع ملنے پر بھارت نے قونصلر رسائی مانگ لی۔ پاکستان نے بھارت سے کیس میں تفتیش میں مدد مانگ لی۔ 30 مارچ 2016ء کو بھارت نے لکھا کہ 13ریمائنڈر بھیجے گئے ہیں۔ 23 جنوری 2017ء کو پاکستان نے بھارت سے ایف آئی آر نمبر 6 مجریہ 2016ء کی تفتیش کیلئے معاونت طلب کرلی، یہ ایف آئی آر 8 اپریل 2016ء کو درج کی گئی۔

ایف آئی آر میں ملزم کو بھارتی شہری لکھا گیا جس سے اس کی قومیت ظاہر ہوئی۔ پاکستان نے ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36کے تحت قونصلررسائی نہ دے کر خلاف ورزی کی۔ 21 مارچ 2017ء کو پاکستان نے قونصلر رسائی کو ملزم کیخلاف تفتیش میں بھارتی معاونت سے مشروط کیا۔ بھارت کو یہ اطلاع ملی کہ اسے ایران سے اغوا کیا گیا جہاں وہ اپنا بزنس چلا رہا ہے تھا مگر اس کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔ 10اپریل 2017ء کو اسے سزائے موت سنا دی گئی۔ اسی روز پاکستان نے قونصلر رسائی کیلئے دوبارہ تفتیش میں مدد مانگ لی۔ آخری سماعت 12فروری 2017ء کو ہوئی۔ 25اپریل 2017ء کو کلبھوشن کے اہل خانہ نے ملاقات کی اجازت مانگ لی۔ 26 اپریل کو یہ درخواست اسلام آباد پہنچ گئی۔

عدالت کے دائرہ کار کا مسئلہ

آرٹیکل 36-1کے تحت عالمی عدالت انصاف کو تمام معاہدوں اور کنونشن پر عملدرآمد کیلئے معاملات کی سماعت کا اختیار حاصل ہے۔ بھارت اور پاکستان اقوام متحدہ کے ممبر ہونے کے ناطے اس سے واقف ہیں۔ قونصلرز ریلیشن سے متعلق ویانا کنونشن کے بھی دستخطی ہیں۔ دوران سماعت پاکستان اور بھارت دونوں نے عدالت کے دائرہ کار کو تسلیم کیا۔ تاہم بھارت نے آرٹیکل 36کے پیرا گراف ون کے تحت عدالت کو فیصلہ کرنے کی دلیل دی۔ اس موقع پر عدالت نے امریکہ اور جرمنی کے مابین ایک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے حکم جاری کیا کہ اسے فیصلہ کا اختیار ہے اور حتمی فیصلہ وہی کرے گی۔

پاکستان نے عالمی عدالت میں کیا دلائل دیئے؟

15مئی 2017ء کو صبح اور دوپہر کے وقت دو مرتبہ عدالت کی سماعت کی کارروائی براہ راست دکھائی گئی۔ اقوام متحدہ کے ویب ٹی وی پر وہ جاری ہوئی جبکہ ٹویٹر پر بھی لنک دیا گیا۔ اس موقع پر پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد فیصل نے دلیل دی کہ کیس میں معظم احمدخان، میں، ہمارے قونصلر خاور قریشی ، ڈپٹی قونصلراسد رحیم، اسسٹنٹ لیگل قونصلر جوزف ڈائٹ اور قونصلر فروغ زیدی شامل ہیں۔ ہم یہ ثابت کریں گے کہ بھارت کی اپیل کیوں غیر ضرور ی اور غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ ہم تمام مسائل کا حل بلا اشتعال، پُر امن طور پر چاہتے ہیں۔ اور ہم نے روزانہ کی بنیادی پر خوفناک دہشت گردوں کے حملوں کا سامنا کیا ہے۔ کچھ ہی دن پہلے جمعہ کے روز 26 اور ہفتہ کو 11پاکستانی شہید ہوئے، یہ شہادتیں اسی علاقے میں ہوئیں جہاں کمانڈر یادو سرگرم تھا۔ سیاسی نفرتیں پیدا کر کے وہ اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا۔ امن کی خاطر ہی ہم چند دنوں کے نوٹس پر یہاں پہنچے ہیں۔ لیکن ہم دہشت گردی کے آگے بکری نہیں بنیں گے اور نہ ہی کسی کو اجازت دیں گے کہ وہ ہمیں بدنام کرے یا غلط چہرہ دکھائے۔

بدقسمتی سے بھارت نے عالمی عدالت انصاف کو ایک سیاسی تھیٹر کے طور پر دیکھا ہے، اسے فٹ پایا ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ وہ اس میں کامیاب رہا، یہ بات قونصلر خاور قریشی ثابت کریں گے کہ قونصلر تک رسائی اور عدالت کی حدود کیا ہیں۔ بلاشبہ بھارت نے کمانڈر یادو کو پاکستان میں بے گناہ شہریوں اور انفراسٹرکچر پر حملے کرنے کیلئے بھیجا۔ اس کا اس نے خود بھی اعتراف کیا۔

25مارچ 2016ء کو سیکرٹری خارجہ نے بھارتی ہائی کمیشن کو کمانڈر یادو کے پاسپورٹ کی فوٹو کاپی بھی پیش کی، آپ سکرین پر دیکھ سکتے ہیں۔ بھارت نے کوئی جواب نہ دیا، جناب صدر، پاسپورٹ میں اس کا نام اسلامی درج ہے۔ بھارت یا تو وضاحت کرنا نہیں چاہتا یا صحیح طور پر کر نہیں سکتا لہٰذا اس نے اس کی صحیح وضاحت نہ کی۔ یہ پاسپورٹ اس کی خفیہ اور غیر قانونی سرگرمیوں کا کھلا ثبوت ہے۔ بھارت کے بقول یہ غلط ہے لیکن اس نے اس کا ثبوت پیش نہیں کیا۔ بھارت کو پاکستان کے 23 جنوری 2017ء کو لکھے گئے خط کا جواب دینا تھا تاکہ کمانڈر یادو کے انکشافات کی روشنی میں تفتیش کی جا سکے۔ مگر بھارت تو ہائیپر ڈرائیو موڈ میں نظر آتا ہے۔ اور اس نے اپنے پریس کو بتایا کہ 47 سالہ ’’بوڑھے‘‘ آدمی نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی، وہ ایران سے اغوا ہو گیا جہاں سے اسے پاکستان لایا گیا جہاں پر وہ جھوٹا اعترافی بیان دے سکے۔

میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس ریاست کے نزدیک میرٹ کیا ہے جو ایک جاسوس اور دہشت گرد کو کسی دوسرے ملک میں بھیجتا ہے اور اسے بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ اہم بات جاسوس کا اعترافی بیان ہے۔ عدالت کو اس کے حصے سننے کی گزارش کرتا ہوں۔

پاکستان نے اسی وقت اقوام متحدہ کے پانچ رکن ممالک اور یورپی یونین کو اپنے شدید تحفظات سے آگاہ کیا۔ اعترافی بیان پر مبنی ویڈیو کے کچھ حصے پبلک کیے گئے۔ میں 6 منٹ پر مشتمل کچھ حصے آپ کے ساتھ بھی شیئر کرنا چاہوں گا۔ میں جانتا ہوں کہ آپ وہ ویڈیو دیکھ چکے ہوں گے مگر وہ یہاں نہیں دکھائی گئی۔ ویڈیو میں کمانڈر یادو رضاکارانہ طور پر تفصیل کے ساتھ جزئیات بیان کر رہا ہے۔ بھارت کو بھی کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ اعترافی بیان کسی دو نمبر طریقے سے لیا گیا ہے۔

بھارت نے عدالت کو بتایا کہ ہم چند دنوں کے اندراندر کمانڈر یادو کو پھانسی دینا چاہتے ہیں۔ اس نے منسلکہ دستاویزات 8 میں بھی کچھ لکھا ہے۔ عدالت یہ جان سکتی ہے کہ یہ قطعی طور پر غلط ہے۔ اسے ڈیڑھ سو دن دئیے گئے اور یہ ڈیڑھ سو دن 10اپریل 2017ء کو شروع ہوئے۔ جس دن اسے سزا سنائی گئی، وہ ہائیکورٹ سے بھی رجوع کر سکتا تھا ، بھارت بھی ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کے طریقہ کار سے پوری طرف واقف ہے۔ اس سلسلے میں آئین کا آرٹیکل 184/3اور آرٹیکل 199بالکل واضح ہیں۔

بھارت نے آپ کے خط کو اپنی فتح کے طور پر دنیا بھر میں پھیلایا ۔ حکم امتناعی کو اپنی فتح قرار دیا مگر ایسا نہیں۔ عدالت کے حکم پر خاور قریشی نے دلائل دئیے۔ درخواست میں بھارت نے کہا کہ کمانڈر یادو کیخلاف سماعت بہت تیزی سے ہوئی اور اسے سمری ٹرائل کے بعد سزائے موت دی گئی۔ اس بارے میں 14اپریل کو وزیراعظم کے مشیر کا خط بالکل واضح ہے۔ عدالتی سماعت کے چار مرحلے ہیں 21ستمبر سے 12فروری تک۔ 90 دن جمع 60 دن۔ 150 دن سماعت ہوئی۔ کیا یہ سرسری ہے۔

پاکستانی حکام نے واضح کیا کہ وہ قونصلر رسائی کا مستحق نہیں اور نہ ہی کبھی یہ کہا کہ وہ قونصلر رسائی نہیں دے گا۔ بھارت نے اس بارے میں عدالت کے سامنے غلط معلومات پر مبنی ریکارڈ پیش کیا۔ پاکستان اور بھارت کے مابین 2008ء کا ایک دوطرفہ معاہدہ موجودہے جس کے تحت کمانڈریادو کا معاملہ میرٹ پر دیکھے گا۔ منسلکہ دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ کمانڈر یادو 13ناموں کے ساتھ سرگرم تھا۔ خط میں پاکستان نے بھارتی اتھارٹی سے کمانڈر یادو کا فون ریکارڈ اور بینک معلومات طلب کیں، یہ قطعی جائز مطالبات تھے۔ بھارت نے پاسپورٹ یا اکائونٹس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا، پاسپورٹ کے معاملے کو جانچ کی ضرورت ہے۔ پھر اعترافی بیان موجود ہے۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی قرار داد 1373بھی پیش نظر رہے۔ 9/11کے بعد اس کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ دہشت گردی سے بچائو کیلئے اقوام متحدہ کے رکن ممالک ایک دوسرے کی معاونت کرنے کے پابند ہیں مگر کیا ہوا بھارت گونگوں کی طرح خاموش رہا کوئی جواب نہیں ملا۔ صفحہ 24 پیراگراف نمبر 50 پر کمانڈر یادو کے اعترافی بیان سے بھارت کوآگاہ کرنے کا ذکر ہے۔

یہ تکلیف دہ بات اس لیے ہے کہ کمانڈر یادو کو بلوچستان سے گرفتار کیاگیا۔ بد قسمتی سے وہاں تشدد بہت عام ہے۔ وہ جعلی پاسپورٹ پر پاکستان میں داخل ہوا۔ جہاں تک ویڈیو کا تعلق ہے 25مارچ 2016 ء کو وہ جاری کی گئی۔ اقبالی بیان 25 مارچ 2016ء کو لیا گیا۔ اس لیے یہ بات جھوٹ پر مبنی ہے کہ قونصلر تک رسائی کی درخواست کے بعد یہ ویڈیو جاری کی گئی۔ پیرا گراف 28 کے مطابق قونصلر رسائی باہمی قانونی تعاون سے مشروط ہے اور دہشت گردی کے خاتمے میں بھارت نے کلبھوشن یادو سے متعلق دستاویزات مہیا نہ کر کے تعاون نہیں کیا۔ وہ اقوام متحدہ کی قرار داد 1373کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا۔ یہ بھی کہا گیا کہ کمانڈر یادو کو کسی قسم کی کینگرو کورٹ میں پیش کیا گیا۔ یہ مؤقف بھی درست نہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ کسی بھی دن پھانسی پر لٹک سکتا ہے، اسی لیے عجلت پیدا کی گئی۔

یوں بھارت نے عدالت کے دائرہ کار کو نامناسب طور پر اختیار کیا مگر یہ عجلت تھی کیا، کچھ بھی نہیں۔ پیرا گوئے کیس میں سزائے موت پر عملدرآمد 11دن میں ہونا تھا جبکہ میکسیکو کے کیس میں 4 ہفتے باقی تھے۔ پیراگوئے کیس پیش نظر رہے۔ 9اپریل کو عدالت نے حکم امتناعی جاری کیا لیکن 14اپریل کو انہیں سزائے موت دے دی گئی۔ اسی طرح 3 مارچ 2009ء کو والٹن لاء گریٹ کے بھائی کو سزائے موت دے دی گئی۔ ان دلائل سے میرا مطلب یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ عدالت کریمنل کورٹ آف اپیل ہے اور نہ ہی اسے فوجداری معاملات میں درخواستوں کی سماعت کا اختیار حاصل ہے۔ اس کی مزید وضاحت 31مارچ 2004ء کے اوینا فیصلے میں ہوتی ہے۔

عدالت نے پیراگراف 122میں واضح کیا کہ عدالت کے روبرو کنونشن کا آرٹیکل 36زیر بحث ہے نا کہ سزائے موت کے درست یا غلط ہونے کا کیس۔ بھارت نے اپنے کیس کا انحصار کانگو اور بلجیئم کے کیس پر کیا ہے۔ مگر دونوں ممالک مختلف حقائق کی بنیاد پر مقدمہ لڑتے رہے۔ استثنیٰ حاصل تھا۔ جس کو استثنیٰ حاصل ہو وہ فوجداری مقدمات میں ملوث نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ درخواست سے بھارت کا مقصد کیا ہے۔یہاں میں 21جون 2000ء کے معاملے کا حوالہ دوں گا۔ 10اگست 1999ء کو بھارت نے ایک پاکستانی طیارے کو پاکستانی حدود میں پرواز کے دوران تباہ کر دیا۔ بھاری جانی نقصان ہوا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت وہ مقدمہ عدالت میں لایا گیا ، پاکستان دولت مشترکہ کا ایک رکن ملک ہے۔ لیکن کورٹ نے اس پر سماعت نہ کی۔
دوسرا نکتہ 1960ء اور پھر 29مارچ 2017ء کا ہے۔ پاکستان کی سلامتی کے معاملات عدالت کے دائرہ کار میں نہیں آتے جہاں تک قونصلر کی رسائی کا تعلق ہے آرٹیکل 5A میں اس کی حدود متعین ہے۔ کسی ملک نے اس آرٹیکل کو مسترد نہیں کیا۔ پاکستان نے آرٹیکل 36کی خلاف ورزی کی، یہ قطعی غلط ہے۔ 31مارچ 2004ء کو عدالت میں اسی قسم کا معاملہ اوینا کیس میں بھی زیر بحث آیا تھا۔ دوران تفتیش کسی بھی مرحلے پر ایکسیس یا رسائی دی جاسکتی ہے۔ لہٰذا بھارت کا مؤقف درست نہیں۔

بھارت کو اس سلسلے میں وقت دینا چاہیے تھا لیکن اگر ہم دوبارہ دیکھیں تو بھارت نے قونصلر رسائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مرد اور عورت کو بھیجا جو کہ جاسوس تھے۔ قونصلر آفیشلز بھیجنے کا مقصد جاسوسی تھا۔ اس صورت میں قونصلررسائی کا آرٹیکل 36ون سی نافذ ہوتا ہے جو اس کے دائرہ کار کو محدود کر دیتا ہے۔


 




Recommended Articles