بھارت سے کشیدگی: بہادر فوجی قیادت کا جنگی منظر نامے پر رہنا اہم

Last Updated On 20 August,2019 09:15 am

لاہور: (تجزیہ :سلمان غنی) پاکستان ایک جانب اپنے ازلی دشمن بھارت سے مشرقی سرحد پر الجھا ہوا ہے اور دونوں ایٹمی ممالک کے درمیان تنازع کشمیر ایک بار پھر بدترین تناؤ کا نقطہ بنا ہوا ہے دوسری جانب افغانستان میں امن کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے اور یہاں امریکی افواج کا انخلا افغانستان کے امن اور اس سے جڑی پاکستانی سرحدوں کیلئے نہایت ضروری ہوچکا ہے ایک منظر نامہ ہے ملک کی داخلی سلامتی کا اور ملک میں جاری سیاسی کشمکش اور معیشت کی ڈوبتی ناؤ کا تو اس سارے منظر میں کمزور حکومت نے ایک بڑا فیصلہ کر دیا جو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کا تھا۔

سپہ سالار کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلہ کو صرف اور صرف استحکام کیلئے پالیسی کا تسلسل اور سنجیدگی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ حکومت نے اس بڑی ڈویلپمنٹ پر اچھی پیشرفت کی۔ نہ تو یہ غیر ضروری طور پر میڈیا پر بحث کا موضوع بنی اور نہ ہی اس پر سیاست کی گئی۔ حکومت نے اس نوٹیفکیشن کیلئے جس وقت کا انتخاب کیا اس کو داد دینی پڑے گی کیونکہ پاک بھارت کشیدگی ہمیں ایسے ہی کسی مستحکم فیصلے کی دعوت دے رہی تھی۔ اس وقت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی اہمیت کیا ہے ؟ اس فیصلے کے بعد پورے خطے کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہونگے ؟ دہشت گردی کی اکھڑتی سانسوں کیلئے اس فیصلہ میں کیا پیغام ہے ؟ افغانستان کے امن عمل کی نتیجہ خیزی پر اس فیصلے کے کیا اثرات ہونگے ؟ اور سب سے بڑھ کر کشمیر کیلئے آخری حد تک جانے کی پالیسی کو کہاں تک عملی جامہ پہنایا جاسکے گا ؟ اس وقت اس بڑے اور صائب فیصلے کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے جب ایک جانب پاکستان اور بھارت میں اصل وجہ تنازع کشمیر میں بھارتی غاصبانہ قبضے میں غیر آئینی اقدامات اور سولہ روز سے جاری کرفیو کی صورتحال ہے اور اس کے متوازی کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت اور خوف کا ماحول ہے۔

پاکستان ہر سطح پر اپنے ازلی دشمن کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے سرخرو ٹھہر رہا ہے۔ کنٹرول لائن پر افواج پاکستان کے جانباز اپنے لہو کے نذرانے مادر وطن کے دفاع میں پیش کر رہے ہیں اور بھارتی سورماؤں کو ان کے ناپاک ارادوں سمیت ناکام بنائے ہوئے ہیں۔ پاکستانی فوج کی اعلیٰ ترین قیادت نے ہمیشہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے سکیورٹی کے نظریے کی پروفیشنل صلاحیتوں کے ساتھ پابندی کی ہے اور اس کے تسلسل کیلئے ہمیشہ بھارت کو کنٹرول لائن پر زبردست سبق پڑھایا ہے۔ موجودہ صورتحال میں بھی پاکستانی افواج نے وہی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے جس کو 27 فروری کے روز اپنایا گیا تھا اور زمین اور فضا دونوں میں اپنی برتری بھارت پر قائم کی گئی تھی۔ بھارت سے کشیدگی کی صورتحال میں ایسی بہادر قیادت کا جنگی منظر نامے پر رہنا نہایت اہمیت کا حامل ہے اور اسے صرف پاکستان کی روایتی حریف قوتیں ہی بخوبی سمجھ سکتی ہیں۔ آئندہ تین سال میں اسی فیصلہ اور پالیسی کے تسلسل نے بہت اثرات پاک بھارت کشیدگی اور افغان صورتحال پر ڈالنے ہیں اور یہ دونوں معاملات ہی پورے خطے کی سیاسی اور معاشی صورتحال پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

موجودہ فوجی قیادت پاکستان کے تاریخی دوست چین کی قیادت سے بہت قریب ہے۔ لازمی طور پر پاک چین معاشی تعلقات کو ایک نئی منزل ملے گی اور چین کی تنازع کشمیر پر پوزیشن بھی ایک نئے رنگ و آہنگ سے دیکھنے کو ملے گی۔ یہ فیصلہ لازمی طور پر پاکستان کے اندر سیاسی بحران پر بھی اثر انداز ہوگا اور پاکستانی معیشت لازمی طور پر استحکام کی جانب جائیگی۔ داخلی سیاست اور سکیورٹی اگر بہتری کی جانب گامزن ہو جائے تو پھر پاکستان خطے میں بہتر اندازمیں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ ایک مضبوط اور پر امن پاکستان ہی کشمیر پر بھارت کو پریشان کرسکتا ہے بلکہ اس کے ارادوں کے آگے بند باندھ سکتا ہے۔ اس فیصلہ کا اثر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ماحول پر بھی ہوگا۔ جنرل باجوہ کے آہنی اقدامات اور زبردست قیادت دہشت گردوں پر ہیبت طاری کئے ہوئے ہے۔ جب جنرل (ر) پرویز کیانی کو توسیع دی گئی تھی تو اس کے فوائد جنرل (ر) راحیل شریف کی قیادت میں افواج پاکستان نے سمیٹے تھے اور ملک میں دہشت گردی کے نیٹ ورک کی کمر توڑ کے رکھ دی تھی۔ موجودہ قیادت بھی اسی منزل کی جانب رواں دواں ہے اور آخری دہشت گرد سے بھی نمٹنے کا عزم کئے ہوئے ہے۔

توسیع کا یہ فیصلہ افغانستان میں امن کے جلد نتیجہ خیز مرحلے تک پہنچنے میں معاون ثابت ہوگا۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں مسئلہ کشمیر کیلئے آخری حد تک جانے کا عزم ہوا تھا اس فیصلہ سے اس عزم کی آج نئی بنیاد ڈال دی گئی ہے۔ اب چونکہ اعلیٰ فوجی قیادت کشمیر کمیٹی کا بھی حصہ ہے تو قوم غالباً سمجھ بیٹھی ہے کشمیر کاز ذمہ دار ہاتھوں میں ہے اور نااہلی یا غفلت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
 

Advertisement