لاہور: (تجزیہ :سلمان غنی) کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضہ سے پیدا شدہ صورتحال اور خصوصاً جنگی کیفیت نہ صرف یہ کہ پاکستان کو در پیش حقیقی مسائل خصوصاً معاشی صورتحال، مہنگائی، بے روزگاری کے رجحان پر غالب آ گئی ہے بلکہ اس کے اثرات اپوزیشن کی سرگرمیوں پر بھی پڑے ہیں اور حکومت کے خلاف مجوزہ احتجاج تحریک اور خصوصاً اسلام آباد کے لاک ڈاؤن کی تجویز کو خود اپوزیشن کے اندر بھی پذیرائی نہیں مل رہی اور اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے ذمہ داران یہ خدشہ ظاہر کرتے نظر آ رہے ہیں کہ اسلام آباد لاک ڈاؤن کا عمل ملک میں جاری جمہوری عمل کیلئے خطرہ نہ بن جائے گا۔ لہٰذا نئی پیدا شدہ صورتحال میں یہ سوالات کھڑے ہو رہے ہیں کہ کیا واقعتاً حکومت کو اب کوئی خطرہ نہیں رہا اور یہ کہ اپوزیشن کی جانب سے بڑی احتجاجی تحریک اور اسلام آباد لاک ڈاؤن کے عمل میں کیا تحفظات در پیش ہیں ؟ کشمیر کے حوالے سے پیدا شدہ صورتحال کے ملکی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟ اور کیا اس صورتحال سے حکومت خطرات سے نکل گئی ہے ؟ اور آنے والے حالات میں سیاست کیا رخ اختیار کرے گی؟۔
جہاں تک نئی پیدا شدہ صورتحال میں حکومت کو در پیش مشکلات کا ذکر ہے تو ایک منتخب حکومت کی حیثیت سے یقینا ملک کو در پیش خطرات سے نمٹنے کی ذمہ داری اس کی ہے اور ملکی مفادات کے حوالے سے جوابدہ بھی وہی ہے۔ البتہ کشمیر کے حوالے سے پیدا شدہ صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو سیاسی محاذ پر اسے یہ فائدہ ضرور ملا ہے کہ اپوزیشن جو حکومت کے خلاف احتجاج اور لاک ڈاؤن کا پروگرام بنا رہی تھی فی الحال سب خبروں پر کشمیر پر پیدا شدہ صورتحال غالب آ چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان سے لیکر وفاقی و صوبائی وزرا سمیت تمام حکومتی ذمہ داران صرف اور صرف کشمیر ایشو کو ہی ٹارگٹ کرتے ہوئے بیرونی و اندرونی محاذ پر سرگرم عمل ہیں اور خود حکومت کے اندر مذکورہ صورتحال کے حوالے سے عام تاثر یہی ہے کہ اب انہیں ملک کے اندر کوئی چیلنج نہیں۔ البتہ بیرونی محاذ پر در پیش صورتحال کے حل کیلئے ہاتھ پاؤں مارے جا رہے ہیں۔ جہاں تک اپوزیشن اور اس کی سیاست کا تعلق ہے تو 5 اگست کے کشمیر پر بھارتی غاصبانہ قبضہ اور اس کے حوالے سے آنے والے رد عمل میں اپوزیشن کی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں۔ خود اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کی قیادتوں کی گرفتاریوں اور مقدمات کے حوالے سے پیدا ہونے والے رد عمل نئے حالات میں گم ہو کر رہ گیا ہے۔
اپوزیشن نے اپنے طور پر کوشش کی ہے کہ کشمیر کی صورتحال کو جواز بنا کر حکومت کے خلاف سیاسی دباؤ بڑھایا جائے۔ لیکن فی الحال اسے اس میں کامیابی نہیں ملی اور 29 اگست کی مجوزہ آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد بھی اس لئے ممکن نہیں ہو سکا کہ حکومت کے خلاف احتجاج اور احتجاجی تحریک کے حوالے سے اپوزیشن جماعتیں یکسو نہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت جو شروع سے ہی حکومت کو ہٹانے اور گرانے کیلئے سرگرم نظر آ رہی تھی اب وہ خود حکومت کے ساتھ ساتھ بڑی اپوزیشن جماعتوں کے حوالے سے بھی مایوسی کا اظہار کرتی نظر آ رہی ہے۔ دوسری جانب اگر حکومت کے طرز عمل اور کشمیر کے حوالے سے حکمت عملی کا بغور جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ کشمیر کاز کے حوالے سے اس کی کمٹمنٹ اور اس کے برملا اظہار سے سیاسی محاذ پر تو اسے ریلیف ملا ہے مگر دوسری جانب حکومتی ذمہ داران خصوصاً وزیراعظم عمران خان کے ان بیانات پر کہ جنگ ہوئی تو یاد رکھیں کہ دونوں ایٹمی ملک ہیں۔ دنیا ان کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ پائے گی اور اب تو ان کے ایک وفاقی وزیر شیخ رشید نے یہ کہہ کر کہ انہیں نومبر میں جنگ نظر آ رہی ہے۔ اس سے ایک نفسیاتی کیفیت ضرور پیدا ہو رہی ہے اور یہ جنگی جنون وقتی طور پر تو حکومت کیلئے فائدہ مند ہوگا لیکن ملک کی دم توڑتی معیشت پر اس کے مضر اثرات ہوں گے اور خصوصاً سرمایہ کاری کا عمل بری طرح مجروح ہوگا۔
گزشتہ روز ہی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ شیخ رشید تو ستمبر، اکتوبر میں جنگ دیکھ رہے ہیں آپ کا اس پر کیا خیال ہے، تو وہ یہ سن کر حیران رہ گئے اور اس کے ساتھ ہی یہ کہہ کر جواب گول کر گئے کہ یہ شیخ رشید ہی بہتر جانتے ہوں گے۔ جس سے ظاہر ہوا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جنگی کیفیت طاری کرنے کے خلاف ہیں اور سفارتی محاذ ہی گرم کرنے اور رکھنے کو ملکی مفاد میں سمجھتے ہیں۔ آج کے حالات بہت زیادہ ذمہ داری اور خصوصاً بیانات اور اعلانات میں حکمت کے متقاضی ہیں۔ یقینا جنگی کیفیت سے سیاسی چیلنجز دب گئے ہیں لیکن آنے والے حالات میں یہ صورتحال الٹ بھی پڑ سکتی ہے، خصوصاً معاشی حالات، خصوصاً مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے رجحانات اپنی انتہا پر ہیں اور کوئی اس صورتحال کا نوٹس نہیں لے رہا۔ کوئی اس طوفان کے آگے بند باندھنے کیلئے پریشان نظر نہیں آ رہا اور اگر یہی حالات اور کیفیت طاری رہتی ہے تو آنے والے چند ہفتوں میں خود حالات ملک کے اندر بھی دگرگوں ہوں گے اور اس کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی اور جوابدہ بھی حکومت کو بننا پڑے گا۔ یقیناً معیشت کی تباہی میں سابقہ حکومتوں کا ہاتھ تھا مگر ایک سال میں آپ نے کیا کیا ؟، قرضوں کا تخمینہ اب سابقہ حکومتوں سے کہیں بڑھ گیا، غیر ترقیاتی اخراجات 7 ہزار ارب کو کراس نہیں کر رہے تو پھر ماضی کی حکومتیں ہی مورد الزام کیوں؟۔