لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) قومی سیاست پر اگر کشمیر ایشو غالب آ گیا ہے تو قومی ایشو خصوصاً معاشی صورتحال مہنگائی، بے روزگاری، غربت کے رجحانات اور گورننس کے ایشو پر اگر حکومتی سنجیدگی نہیں تو کیا اپوزیشن اپنی سیاسی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے عوام کی آواز بنی ہے اور آخر کیا وجہ ہے کہ ملک کی اہم جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن کا کردار بھی ایک خاموش تماشائی کا بنتا جا رہا ہے۔ ماضی میں سیاسی قیادتیں جیل جاتی رہی ہیں اور اپوزیشن جماعتوں کو مقدمات، جیلوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے مگر اس صورتحال میں اپوزیشن رد عمل کے طور پر زیادہ موثر کردار ادا کرتی نظر آتی تھی اور حکومت کو قومی اور عوامی ایشوز پر ٹف ٹائم دیا جاتا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ اپنے اس سیاسی اور بھرپور کردار کے باعث اپوزیشن ہی اگلے انتخابات کے ذریعے حکومت بناتی رہی۔ لہٰذا موجودہ ملکی صورتحال میں یہ سوال بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ حکومت گھمبیر صورتحال میں پھنسی نظر آ رہی ہے تو اپوزیشن کا سیاسی کردار کہاں ہے، قیادتوں کے جیل میں جانے کے بعد ان کی جماعتوں میں تحریک یا رد عمل پیدا ہونے کے بجائے مایوسی کیوں طاری ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی کارکردگی اور کردار یہی رہا تو مسائل زدہ عوام کدھر دیکھیں گے ملک کو در پیش چیلنجز اور مشکلات کا مداوا کون کرے گا۔
سیاسی منظر نامہ ہر زاویہ نگاہ سے بتا رہا ہے کہ حکومت ہر محاذ پر پھنسی ہوئی ہے مگر اس سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ اپوزیشن اس صورتحال میں کہاں کھو گئی ہے اس کا کوئی سراغ نہیں مل رہا۔ صورتحال تلاشِ گمشدہ کی مانند ہو چکی ہے۔ جمہوریت میں اپوزیشن کا صرف کردار حکومت گرانے اور اسے محض تنقید کا ہدف بنانا نہیں ہوتا بلکہ مشکل میں پھنسی ہوئی حکومت کی رہنمائی اور کوئی متبادل پروگرام قوم کے آگے رکھنے کا ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ملک کی دہائیوں سے جاری سیاست پر نظر دوڑائیں تو پھر واضح ہوتا جائیگا کہ اپوزیشن نے ہمیشہ قومی ایشوز پر مایوس کن کردار ادا کیا اور ہمیشہ میدان میں تب آئی جب حکومت گرانا مقصود ہوتا ہے اور اقتدار کے گھوڑے کی باگیں تھامنے کا کردار بالا دست طبقات سے عطا ہوتا ہے۔ اس لمحے اپوزیشن کا کردار اس کی مہم جوئیاں اور حوصلے دیکھنے لائق ہوتے ہیں، جب اسے کچھ ہاتھ لگنے کا پکا یقین ہوتا ہے۔ اس وقت حکومت ہر محاذ پر اوندھے منہ گری پڑی ہے۔ نہ گورننس کنٹرول میں ہے ، نہ اقتدار کا اختیار اس کی جیب میں ہے ۔ نہ معیشت سنبھل رہی ہے ، عوام سخت مایوسی اور بے چینی کا شکار ہو چکے اور سب سے بڑھ کر اب کشمیر کی صورتحال نے عوام کو مزید مضطرب کر دیا ہے اور حکومت کوواشنگٹن سے جیتا ہوا ورلڈ کپ چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی مگر اپوزیشن ہے کہ ڈھونڈنے سے نہیں مل رہی۔
اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں مگر سب سے بڑی وجہ احتساب کا عمل اور کرپشن کا ناسور ہے جو ظاہر ہے اپوزیشن کی صفوں میں کم یا زیادہ ضرور پایا جاتا ہے۔ اپوزیشن آئے روز احتسابی عمل اور اداروں میں خوار ہے اور ہم اس سے کسی متبادل پروگرام کی غلط توقع باندھے بیٹھے ہیں۔ دونوں بڑی جماعتوں کی صفِ اول کی قیادت اس وقت جیلوں میں بند ہے اور اس کے رد عمل میں نہ تو کوئی تحریک نظر آ رہی ہے نہ کوئی احتجاج ہے بلکہ ایک خاموشی اور مایوسی طاری ہے۔ سیاسی جماعتوں سے ہٹ کر عوام میں بھی اس قید و بند کے خلاف کوئی بے چینی نہیں۔ شاید اس کی وجہ عوام میں معاشی بد حالی کے ساتھ ساتھ کرپشن مخالف جذبات بھی ہے۔ ماضی میں اگر سیاسی حکومتیں احتساب کے نام پر سیاسی انتقام کا دروازہ کھولتی تھیں تو پھر عوام سیاسی جماعتوں کی احتجاجی کال کے ساتھ میدان عمل میں نکل کھڑے ہوتے تھے۔ چاہے پی این اے کی تحریک ہو یا ایم آر ڈی کی تحریک یا اے آر ڈی کی موومنٹ۔ تب شاید سیاسی قیادتیں کرپشن فری ہوا کرتی تھیں مگر اب یہ عالم ہے کہ ہر دوسرا سیاستدان اپنا شاہانہ طرز زندگی بنا چکا ہے اور چاروں طرف اس کے چکا چوند کا ماحول ہے۔
دوسری جانب مفلوک الحال عوام ہے تو یہ صورتحال سیاسی اشرافیہ کا جمہوریت کے حق میں مقدمہ کمزور کرتی ہے اور لوگ اس سارے جمہوری عمل سے بیگانہ ہو جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں عوام مایوسی کے ساتھ کس جانب دیکھیں؟ پاکستان جیسے ملکوں میں یہ وہ بد قسمت لمحہ ہوتا ہے جب حکومت سے کچھ ہو نہیں رہا ہوتا، اپوزیشن کی ساکھ ختم ہو چکی ہوتی ہے اور پھر عوام کسی مسیحا کی تلاش میں آمریت کا جشن مناتے ہیں۔ اس وقت تو عوام کی مایوسی اور بھی دیکھنے لائق ہے جب دو روایتی جماعتوں کے بعد تیسرا آپشن بھی ناکامی سے دو چار ہو رہا ہے اور اس صورتحال سے تبدیلی کی امید سے روشن دل و دماغ کی مایوسی دیکھنے لائق ہے۔ اس سارے منظر نامے سے اصل نقصان سسٹم (جمہوریت) کی افادیت اور اس کے مستقبل کو ہے ۔ یہ وہ محاذ ہے جو حکومت اور اپوزیشن کا سانجھا ہے۔ لہٰذا دونوں طرف سمجھدار طبقات سامنے آئیں یا پسِ منظر میں رہ کر کوئی قابلِ عمل فارمولہ طے کریں جس سے احتساب بھی چلتا رہے، پارلیمنٹ میں قانون سازی بھی ہو اور ملک میں معاشی استحکام کیلئے سیاسی بحران بھی ختم ہو، وگرنہ حالات ایسی ڈگر پر رہے تو پھر بڑی مصیبت جمہوریت کے تسلسل کیلئے کھڑی ہو جائیگی۔