لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) امریکی صدر ٹرمپ کے بعد اقوام متحدہ نے بھی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے دو طرفہ معاملات اور مسائل کے حل کیلئے پاک بھارت مذاکراتی عمل ضروری ہے، فریقین قبول کریں تو اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ کشمیر پر ثالثی کی بین الاقومی پیش کش کہیں بڑا ٹریپ تو نہیں۔
5 اگست کے بھارتی اقدام کے بعد مسئلہ کشمیر کو عالمی حیثیت ملی ہے خصوصاً بھارت کی جانب سے مقبوضہ وادی میں ظلم، تشدد اور بربریت کے بعد سفاک کرفیو کے عمل نے کشمیریوں کے مسائل کو انسانی مسئلہ کے طور پر اجاگر کیا ہے اور آج دنیا اس پر تشویش ظاہر کرتی نظر آ رہی ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ کوئی بھی بھارت کا ہاتھ روکنے کو تیار نہیں۔ ثالثی کا عمل تب کارگر ہوتا ہے جب فریقین کسی تیسرے شخص کو ثالث تسلیم کرنے کو تیار ہوں، لیکن بھارت مذاکراتی عمل کی طرح ثالثی کے عمل پر بھی مسلسل ضد اور ہٹ دھرمی پر تلا بیٹھا ہے، اس کی بڑی سیاسی وجہ یہ ہے کہ بھارت کا کشمیر پر کوئی سیاسی کیس نہیں۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور بین الاقوامی اداروں کی قراردادیں اس پر موجود ہیں مگر وہ ان قراردادوں کے باوجود کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا رہا ہے۔
زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو کشمیر کا سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ کشمیری بھارت کو غاصب قرار دیتے ہوئے اس کا تسلط قبول کرنے کو تیار نہیں، کشمیریوں کی بھارت کے خلاف نفرت ڈھکی چھپی نہیں، طاقت اور قوت کے بھرپور استعمال کے باوجود بھارت وہاں اپنا تسلط قائم نہیں کر پا رہا۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی پیش کش قبول نہ کرنے کا بھارتی اقدام ظاہر کر رہا ہے کہ وہ اپنے کسی خاص ایجنڈا پر کاربند ہے اور اس کا 5 اگست کے اقدام کو بھی کسی بین الاقوامی انڈرسٹینڈنگ کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے اور یہ خدشہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے بار بار ثالثی کی پیش کش بھی کسی ایجنڈے کا حصہ ہے اور ایسا نہ ہو کہ امریکا ثالثی کے اس عمل کے تحت کشمیر کے کسی ایسے حل پر پاکستان کو مجبور کرنے کی کوشش کرے جو کشمیری عوام کی خواہش کے برخلاف ہو، اس پر ایک عرصہ سے کام ہو رہا ہے، ماضی میں جنرل مشرف کے دور میں بھی کشمیر پر قراردادوں کے برخلاف ایک چار نکاتی فارمولا پیش کیا گیا تھا، کشمیری قیادت نے اسے مسترد کر دیا تھا، آج پھر اس سے ملتے جلتے کسی حل کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن مسئلہ کشمیر اور کشمیر کے اندر پیدا شدہ صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو صرف اور صرف وہی فارمولا کارگر نظر آتا ہے جس کے مطابق جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت اور وہاں کے باشندوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا جائے اور مسئلہ کے حل کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بروئے کار لایا جائے۔
اس کے سوا کوئی بھی آپشن کشمیر پر پاکستان کے اصولی مؤقف سے دستبرداری اور کشمیریوں کی جدوجہد کی توہین ہی سمجھی جائے گی، جس کی اجازت نہ کشمیری دیں گے اور نہ ہی کوئی اور آپشن اور فارمولا پاکستان کے حق میں ہوگا، اقوام متحدہ کو خود اپنی قراردادوں کو اہمیت دیتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، جنرل اسمبلی کا آنے والا اجلاس اس حوالے سے اہم ہوگا تاریخی حقیقت یہی ہے کہ عالمی برادری اور اداروں نے فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے دوہرا طرز عمل اختیار کیا اور ان کے حوالے سے قراردادوں پر عمل درآمد یا پیش رفت نہ ہو سکی جبکہ سوڈان، مشرقی تیمور وغیرہ میں استصواب رائے کی مثالیں موجود ہیں۔ امریکا عالمی امن کے علمبردار ہونے کا دعویدار ہے تو اسے چاہیے کہ کشمیر کے مسئلہ کو انسانی مسئلہ سمجھتے ہوئے بھارت کے ظلم، جبر اور تشدد کو روکے۔ کشمیریوں پر کوئی اور حل تھونپنے کی کوشش ہوئی تو وہ بڑے بگاڑ کا باعث بنے گی۔
بین الاقوامی میڈیا میں ایسی رپورٹس کی اشاعت بھی کسی خطرے سے کم نہیں کہ مودی حکومت بڑے مقاصد کے تحت عالمی قوتوں کے ساتھ اس علاقے میں بڑا منصوبہ رکھتی ہے اور خدشات ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے بعد بھارت آزاد کشمیر پر بھی چڑھ دوڑے گا، ایسی دراندازی کو پاکستان جرأت مندانہ جواب دے کر ہی روک سکتا ہے، پاکستان کو ابھی سے دنیا کو باور کرانا ہوگا کہ ایسا کوئی اقدام ہوا تو دنیا مت بھولے کہ ہم ایٹمی قوت ہیں، بھارت اور عالمی طاقتوں کا گٹھ جوڑ جو عزائم رکھتا ہے اسے خاک میں ملا دیں گے۔