لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) مغربی بارڈر پر ایک ہی ہفتے میں دہشت گردی کے دو واقعات اور ان کے نتیجہ میں قیمتی جانوں کا ضیاع یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ایک تو مغربی بارڈر پر باڑ کا عمل افغانستان میں موجود کئی گروپوں کو ہضم نہیں ہو پا رہا اور دوسرا اس وقت جبکہ کشمیر ایشو کے باعث مشرقی بارڈر پر ایک محاذ آرائی اور تناؤ کی کیفیت موجود ہے تو مغربی بارڈر کو گرم کر کے پاکستان کی توجہ کو دونوں بارڈرز پر مرکوز رکھنے کی سازش ہے۔ لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ مغربی بارڈر کو گرم کرنے اور یہاں دہشت گردی کے واقعات کے مقاصد کیا ہیں ؟ پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سرحد پر باڑ لگانے کا عمل کن کو ہضم نہیں ہو پا رہا اور کیا افغانستان میں جاری امن عمل کے امکانات ختم ہو گئے ہیں؟ اور افغانستان میں دہشت گردی کے رجحانات کے اثرات کیا پاکستان تک آئیں گے ؟۔
جہاں تک افغان بارڈر پر دہشت گردی کی پے در پے وارداتوں کا تعلق ہے تو ایک بات واضح ہے کہ بارڈر کے اس پار کوئی حکومتی رٹ نہیں اور دہشت گردوں کے منظم گروہ وہاں دندناتے نظر آتے ہیں اور خود پاکستان سے جانے والے کالعدم ٹی ٹی پی کے رہنما بھی ابھی تک وہاں موجود پاکستان میں دہشت گردی کے تانے بانے بنتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان نے اپنی سر زمین کو پاک کرنے کیلئے ممکنہ اقدامات کر رکھے ہیں لہٰذا اب ان کی پہنچ افغان بارڈر تک محدود ہے اور دہشت گردوں کے یہ گروہ افغان بارڈر اور خصوصاً یہاں باڑ لگانے کے عمل کو اپنے لئے چیلنج سمجھتے ہوئے یہاں اپنے رد عمل کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں یہاں ہمارے چار فوجی جوان شہید ہوئے اور گزشتہ روز پاک افغان سرحد پر بارودی سرنگ کے دھماکے کے باعث پاک فوج کے میجر عدیل اور جوان فراز شہید ہوئے۔ افغانستان میں امن عمل کے حوالے سے پاکستان کا کردار سب سے زیادہ بھارت کو گراں گزرتا ہے اور افغان انتظامیہ بھی پاکستان کے کردار بارے تحفظات ظاہر کرتی رہی ہے ، لیکن تمام تر تحفظات کے باوجود پاکستان نے طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکراتی عمل میں سہولت کار کا فرض نبھایا اور ان کے درمیان مجوزہ معاہدہ طے ہونے کے بعد یہ سلسلہ امریکی صدر ٹرمپ کی ایک ٹویٹ کے باعث ٹوٹ گیا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے باعث پاکستان کی توجہ مشرقی بارڈر پر مرکوز تھی تو اب مغربی بارڈر پر بھی نئی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تا کہ پاکستان اپنی افواج کو مشرقی بارڈر پر شفٹ نہ کر سکے اور اسے ایک ہی وقت میں دو محاذوں پر مصروف رکھا جائے اور ایک ایسے وقت میں جب پاکستانی وزیراعظم عمران خان دورہ امریکا پر پہنچ رہے ہیں تو دہشت گردی کے ذریعے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مشرقی بارڈر ہی نہیں بلکہ مغربی بارڈر پر بھی ایک غیر معمولی صورتحال ہے اور پاکستان کا دشمن اس صورتحال کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرائیں گے۔ یہ پاکستان ہی ہے جس نے افغانستان انتظامیہ کی دشمنی اور الزام تراشی کے باوجود افغانستان میں امن کیلئے ہمیشہ سنجیدہ کوششیں کیں مگر جواباً کبھی کابل سے پاکستان کی جانب سرد ہوا نہیں آئی اور آج بھی جب پاکستان بھارت کے ساتھ ایک نئی کشمکش سے دو چار ہے تو بھارت اور افغان انتظامیہ مل کر پاکستان کے خلاف سازشوں میں ملوث ہیں اور افغان سر زمین پاکستان اور پاکستانی فوج کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ ہماری قیمتی جانوں کا ضیاع اہل پاکستان کے سامنے بھی ایک بڑا سوال کھڑا کرتا ہے کہ ہم کب تک افغانستان میں امن کیلئے اپنے افسر وں اور جوانوں کے لاشے اٹھائیں گے۔
امریکا کیلئے سوچنے کا مقام ہے اور اسے امن عمل کو بحال کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے۔ انسانی سیاسی تاریخ میں افغانستان واحد ملک ہے جہاں دیگر ممالک اور خصوصاً ہمسائے امن کیلئے اور افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت اپنی سر زمین کو دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے کو اپنے مفاد میں سمجھتی ہے اس کے نزدیک اس کے عوام کی جانوں سے زیادہ قیمتی ان کے سیاسی مفادات ہیں اور اس کا بڑا ثبوت امریکا طالبان معاہدہ کیلئے مذاکرات کے خاتمہ پر دہلی اور کابل میں منائی جانے والی خوشی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ وہ افغانستان میں امن کو اپنے سیاسی مفادات کیلئے خطرہ تصور کرتے ہیں کیونکہ امن کے قیام میں پاکستان کا کردار دنیا پر عیاں ہے۔