لاہور: (علی مصطفی ) 7 روزہ دورے پر امریکا جانے والے وزیراعظم عمران خان نے صرف مسئلہ کشمیر ہی نہیں بلکہ اپنے دورے میں بہت سے اہم معاملات جیسے افغان امن عمل، ایران اور امریکا تنازع، خلیج کی صورتحال، اسلاموفوبیا، ماحولیاتی تبدیلی سمیت دیگر اہم امور پر عالمی فورمز سے خطاب اور رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم امریکی قانون سازوں، سکالرز، انسانی حقوق کے کارکنوں، میڈیا نمائندوں، عالمی سربراہان سمیت دیگر اہم شخصیات سے مل چکے ہیں جبکہ میڈیا کو بھی مختلف انٹرویوز دیے ہیں۔
اگر ان کے اب تک کے شیڈول پر نظر ڈالیں تو 21 ستمبر کو وزیراعظم امریکا پہنچے تھے، جہاں انہوں نے کشمیر سٹڈی گروپ کے بانی کاتھواری سے ملاقات کی تھی، جس میں انہوں نے زور دیا تھا کہ دنیا کو کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی قبضے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق آگاہ کرتے رہیں تاکہ وہ مودی حکومت کا اصل چہرہ دیکھ سکیں۔
گزشتہ ہفتے کو عمران خان نے افغان امن عمل کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد سے ملاقات کی تھی، اس کے علاوہ وزیراعظم نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل کُومی نائیڈو سے بھی تبادلہ خیال کیا تھا اور ان سے کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر بات چیت کی گئی تھی۔
اپنے دورے کے دوسرے روز وزیراعظم نے امریکی قانون سازوں، سکالرز، انسانی حقوق کے کارکنوں اور میڈیا نمائندگان سے ملاقاتیں کیں تھیں اور انہیں وادی کشمیر سے متعلق بھارتی اقدامات کے نقصانات سے آگاہ کیا تھا۔
23 ستمبر کو وزیراعظم کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ہوئی تھی، یہ ملاقات وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد دوسری ملاقات تھی۔
اس ملاقات کے بعد دونوں شخصیات نے پریس کانفرنس بھی کی تھی اور امریکی صدر نے ایک مرتبہ پھر ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر طویل عرصے سے حل طلب ہے اور اگر دونوں ممالک چاہیں تو ثالثی کے لیے تیار ہوں۔
اسی روز وزیراعظم نے برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن سے بھی ملاقات کی تھی، دونوں رہنماﺅں نے باہمی، علاقائی اور دوطرفہ دلچسپی کے کئی امور پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ عمران خان نے برطانوی وزیراعظم کو کشمیر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے آگاہ کیا تھا اور زور دیا تھا کہ عالمی برادری انسانی حقوق اور انسانی صورتحال کی سنگینی اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔
اپنے دورے میں وزیراعظم نے امریکی تھنک ٹینک فار فارن ریلیشنز میں بھی گفتگو کی تھی اور نائن الیون کے بعد امریکا کا اتحادی بننا پاکستان کی سب سے بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس جنگ میں 70 ہزار پاکستانی جاں بحق ہوئے اور معیشت کو 200 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
بعد ازاں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیراعظم نے ہمسایہ ملک ایران کے صدر حسن روحانی سے بھی ملاقات کی تھی اور علاقائی صورتحال سمیت متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
وزیراعظم نے اپنے دورے کے دوران مسلم دنیا کے اہم سربراہان ترک صدر رجب طیب اردوان اور ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد سے بھی ملاقات کی تھی۔ وزیراعظم نے ترک صدر کی توجہ مقبوضہ کشمیر کی عوام کو درپیش صورتحال کی جانب مبذول کروائی، ترک صدر نے اس موقع پر وزیراعظم کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا تھا۔
ترک صدر نے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر کا معاملہ اٹھایا تھا اور کہا تھا کہ 80 لاکھ لوگ وہاں محصور ہیں۔
اپنے دورے میں وزیراعظم عمران خان سے چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے بھی ملاقات کی اور تنازع کشمیر سمیت پاکستان کے اہم مفادات کے تحفظ و فروغ کے لئے چین کی مکمل حمایت کے عزم کا اعادہ کیا۔
23 اور 24 اگست کے درمیان ہی عمران خان نے نیویارک میں عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ میلپس سے بھی ملاقات کی تھی اور پاکستان کے معاشی ترقی کے امور پر تبادلہ خیال کیا تھا جبکہ سوئس کنفیڈریشن کے صدر اولی مارر سے بھی وزیراعظم نے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کشمیر میں 50 روز سے جاری کرفیو اور دیگرپابندیاں ختم کرنے کی ضرورت پر زوردیا تھا۔
وزیراعظم نے 25 ستمبر کو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن سے بھی ملاقات کی تھی جس میں دونوں رہنماؤں نے دنیا بھر میں ابھرتے ہوئے مسلمان مخالف جذبات اور اسلامو فوبیا جیسے مسائل پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا تھا۔
اسی روز رات کو وزیراعظم نے نیویارک میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی کے ساتھ نیوز کانفرنس کی تھی اور کہا تھا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کر رکھا ہے جہاں 9 لاکھ فوج تعینات ہے اور کرفیو کے خاتمے کے بعد قتل عام کا خدشہ ہے۔
علاوہ ازیں وزیراعظم نے بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے سربراہ بل گیٹس سمیت وفد سے ملاقات کی تھی اور فاؤنڈیشن نے پاکستان کو آئندہ برس احساس پروگرام پر عملدرآمد کے لیے 20 کروڑ ڈالر فراہم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
ساتھ ہی انہوں نے وال سٹریٹ جنرل کے ادارتی بورڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینتھ روتھ سے بھی نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس کے موقع پر ملاقات کی تھی۔
اسی روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے دوران ترکی اور پاکستان کے تعاون سے منعقدہ ’نفرت انگیز گفتگو‘ کے خلاف کانفرنس بھی منعقد کی گئی تھی، جس میں وزیراعظم نے ہشت گردی اور خود کش حملوں کو مذہب سے جوڑنے کو بدقسمتی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ مغربی ممالک توہین رسالت اور دہشت گردی سے اچھی طرح آگاہ نہیں ہیں اور ہر چند سال بعد پیغمبراسلام ﷺ کے حوالے سے کوئی گستاخی کی جاتی ہے۔
مزید برآں پاکستان سمیت مسلم دنیا کے دو اہم ممالک ترکی اور ملائیشیا نے ایک ساتھ مل کر اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے انگریزی چینل شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ 26 ستمبر کو عمران خان نے اپنے دورے میں اقوام متحدہ کے تحت ترقی کے لیے فنڈنگ اور نیویارک میں ایشیا سوسائٹی سے بھی خطاب کیا تھا۔
27 ستمبر کو وزیراعظم نے جنرل اسمبلی سے خطاب کیا اور دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر سمیت اہم عالمی امور پر دلوائی، ان امور پر اسلامو فوبیا، منی لانڈرنگ، موسمیاتی تبدیلی بھی شامل تھے۔
وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ سے خطاب میں دنیا کو متنبہ کیا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے یہ صورتحال دونوں ملکوں کے درمیان جوہری جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
اپنے خطاب کے سب سے اہم حصے میں مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ تسلط اور کرفیو سے وہاں کی عوام کو درپیش سنگین مسائل سے دنیا کو آگاہ کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ میں اقوام متحدہ میں کشمیر کے لئے آیا ہوں۔
انہوں نے دنیا کو بتایا کہ نریندر مودی کے غرور نے اس کو اندھا کر رکھا ہے۔ کشمیر میں کرفیو کے باعث 9 لاکھ بھارتی فوج تعینات ہے۔ کشمیر میں گزشتہ 55 دن سے لاک ڈاؤن ہے۔ پیلٹ گنوں سے نوجوانوں کی بینائی چھینی جا رہی ہے۔ تیس ہزار کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دنیا سوچے اتنے ظلم کے بعد کشمیریوں کا کیا ردعمل ہوگا؟
وزیراعظم نے عالمی ادارے کو یاد دہانی کرائی کہ کشمیریوں سے حق خود ارادیت کا وعدہ اقوام متحدہ نے کیا تھا۔ آپ لوگوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت دو ایٹمی طاقتیں ہیں۔ اگر پاک بھارت جنگ چھڑ گئی تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ وقت ہے جب اقوام متحدہ کو فوری ایکشن لیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر سے کرفیو ہٹانا چاہیے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کو ان کے حقوق نہیں دیئے جا رہے۔ کشمیریوں کا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں، اگر اسی طرح یہودی اور یورپین کو گھروں میں بند کیا جاتا تو آپ لوگوں کا کیا ردعمل ہوتا؟ 80 لاکھ جانوروں کو ایسے قید کیا جاتا تو دنیا میں شور مچایا جاتا۔
جنرل اسمبلی اجلاس میں وزیراعظم کی تقریر کے دوران تالیاں بجتی رہیں جبکہ بھارتی مندوب اس دوران منہ لٹکائے بیٹھے رہے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں عالمی رہنماؤں کو بتایا کہ میں نے جب اقتدار سنبھالا تو مودی سے مسائل کو مذاکرات سے حل کرنے کی بات کی اور کہا کہ مشترکہ مسائل کے حل کے لئے مل کر کام کریں لیکن جب بھی مذاکرات کے قریب آئے بھارت نے انکار کر دیا حتیٰ کہ ایف اے ٹی ایف میں ہمیں بلیک لسٹ کرانے کی کوشش کی۔ بھارت نے پلوامہ حملے کا بغیر ثبوت الزام لگا دیا حالانکہ یہ حملہ 23 سالہ کشمیری نوجوان نے حملہ کیا۔
انہوں نے جنرل اسمبلی کو باور کرایا کہ مودی نے الیکشن ہی پاکستان مخالف مہم سے لڑا۔ الیکشن ختم ہوئے تو بھارت سے دوبارہ مذاکرات کی بات کی اور کہا کہ اگر بھارت کے پاس ثبوت ہیں تو ہمیں فراہم کیے جائیں لیکن اس پیشکش کا منفی جواب دیتے ہوئے بھارت نے ہماری سرزمین کی خلاف ورزی کی اور بم گرا دیے، جنہوں نے چند درخت گرانے کے علاوہ ہمارا اور کوئی نقصان نہیں کیا۔ ہم نے دو بھارتی جہاز مار گرائے اور جذبہ خیر سگالی کے تحت ایک انڈین پائلٹ کو بھی واپس کر دیا۔ اس موقع پر جنرل اسمبلی کا پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔