لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) کراچی سے حکومت کے خلاف شروع ہونے والا آزادی مارچ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں شروع ہونے والے اس مارچ کو ملک کی اہم جماعتوں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کی تائید و حمایت بھی حاصل ہے۔ احتجاجی مارچ کس حد تک نتیجہ خیز ہو سکتا ہے اور کیا منتخب حکومت سیاسی دباؤ قبول کر پائے گی ؟ مذکورہ سیاسی مشق کے اپوزیشن کو کیا فوائد حاصل ہوں گے اور آنے والے سیاسی حالات میں ملک کے اندر سیاسی و اقتصادی استحکام قائم ہو پائے گا ؟۔
جہاں تک مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ اور اس کی ٹائمنگ کا سوال ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے ملک کے اندر معاشی صورتحال خصوصاً مہنگائی، بے روزگاری، غربت، بد انتظامی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس اقدام کا اعلان کیا اور سیاسی فائدہ انہیں یہ ملا کہ باقاعدہ احتجاجی مارچ سے قبل ہی احتجاجی مارچ ملکی سیاست اور میڈیا کے محاذ پر غالب آ گیا جس نے حکومت کو بوکھلا کر رکھ دیا اور اپوزیشن کی دوبڑی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کی جانب سے مذکورہ احتجاجی مارچ کی حمایت نے اسلام آباد کو ہلا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس اقدام کے بعد بظاہر اپوزیشن کے ساتھ سخت موقف اپنانے والی حکومت نے احتجاجی مارچ کو حدود و قیود کا پابند بنانے کیلئے باقاعدہ مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی اور انہیں ٹاسک سونپا گیا کہ انہیں احتجاجی مارچ کو اسلام آباد میں کسی غیر معمولی اور ہنگامی صورتحال طاری کرنے سے باز رکھتے ہوئے ایسی حکمت عملی ترتیب دی جائے کہ احتجاجی مارچ بھی منعقد ہو جائے اور اسلام آباد میں بھی ایسی کوئی صورتحال پیدا نہ ہو جو دنیا بھر میں پاکستان کی اچھی تصویر پیش نہ کرے یا پاکستان کی جگ ہنسائی کا باعث بنے۔
دوسری جانب یہی تحریک خود بڑی سیاسی جماعتوں میں موجود تھی اور وہ بھی حکومت پر دباؤ تو بڑھانا چاہتے تھے مگر کوئی ایسی صورتحال اسلام آباد میں برپا کرنے کے خلاف تھے جس سے ملک میں جاری جمہوریت اور جمہوری سسٹم کو کوئی نقصان پہنچے۔ بہر حال حکومت کی یہ حکمت عملی اس حد تک تو کامیاب رہی ہے کہ وہ احتجاجی مارچ کو اسلام آباد کے ایک کونے تک محدود کرنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ دھرنا کے اصل مقاصد کیا ہیں ؟ اور کیا مولانا فضل الرحمن اور اپوزیشن ان مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو گی۔ مارچ کا اب تک بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اپوزیشن کے خلاف جارحانہ انداز میں سرگرم حکومت اب دفاعی محاذ پر آ گئی ہے اور اس کی بڑی وجہ خود حکومت کی اب تک کی کارکردگی ہے کیونکہ مسند اقتدار پر پہنچنے کے 13 ماہ بعد ہی حکومت معاشی صورتحال کا ذمہ دار ماضی کی حکومتوں کو قرار دیتے ہوئے اپنی ذمہ داری سے صرف نظر برتتی نظر آ رہی ہے، بے روزگاری کے خلاف اعلان جہاد کرنے اور ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کی دعویدار حکومت کے دور میں اب تک لاکھوں لوگ مختلف اداروں میں اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور یہ رجحان جاری ہے جو حکومت کی غیر مقبولیت کا باعث بنا ہے جس کا فائدہ ان کے مخالفین اٹھاتے نظر آ رہے ہیں۔
جہاں تک دھرنا کے مقاصد کا تعلق ہے تو اس پر زیادہ تر مولانا فضل الرحمن کا وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے خلاف غصہ غالب ہے اور وہ حکومت کو ٹارگٹ کرتے نظر آ رہے ہیں، ان کی نا اہلی اور ناکامی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں مگر متبادل کیا ہوگا ؟ اس حوالے سے ان کے پاس کوئی واضح جواب نہیں۔ البتہ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف جو احتجاجی دھرنا کے حوالے سے اپنے تحفظات ظاہر کرتے ہوئے صرف احتجاجی جلسہ اور مارچ کے حامی تھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ان کے پاس ایسی کوئی حکمت عملی موجود ہے کہ وہ نہ تو سسٹم کا خاتمہ چاہتے ہیں اور نہ ہی وقتی طور پر وزیراعظم عمران خان کے استعفے میں دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن یہ سمجھتی ہے کہ جتنا زیادہ وقت وزیراعظم عمران خان کو ملے گا اتنے زیادہ وہ ایکسپوز ہوں گے۔ البتہ شہباز شریف سمجھتے ہیں کہ نئے انتخابات کی بجائے موجودہ اسمبلیوں کے اندر سے تبدیلی کے ذریعہ کام چلایا جا سکتا ہے کیونکہ مرکز اور پنجاب کی سطح پر حکمران جماعت کے پاس اتنی اکثریت نہیں کہ وہ خود کو خطرناک زون سے باہر سمجھے، محض چند ووٹ ادھر اُدھر کر کے سیاسی تبدیلی ہو سکتی ہے لیکن اس سیاسی تبدیلی کیلئے بھی انہیں ایسی فورسز کی حمایت درکار ہوگی جن کی بنا پر مسلم لیگ ن جیسی مقبول قیادت اور جماعت کو واضح اور بڑی اکثریت رکھنے کے باوجود اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا لہٰذا دھرنا اور احتجاج کے نتیجہ میں یہ بات تو کہی جا سکتی ہے کہ اس سے حکومت کو جھٹکا تو لگے گا، لیکن حکومت کا گرنا فی الحال ممکن نہیں،
احتجاج کے جس رجحان کا آغاز مولانا فضل الرحمن نے کیا ہے اور وہ اسلام آباد آ رہے ہیں تو یہ رجحان رکنے والا نہیں بلکہ 31 اکتوبر کے جلسہ میں اپنے اگلے اقدام کا اعلان ہوگا اور ملک پر بحرانی کیفیت طاری رہے گی اور قو می سیاست کا یہ المیہ رہے گا کہ کوئی بھی کسی کا مینڈیٹ قبول کرنے کو تیار نہیں جو بھی جماعت انتخابات جیت کر آتی ہے دوسری یہ سمجھتی ہے کہ اسے ایک سازش کے تحت پس پردہ قوتوں نے ہرایا اس امر پر دو آرا نہیں کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ایک بہت بڑی سیاسی حقیقت ہے مگر بد قسمتی یہ ہے کہ ہماری سیاسی حکومتیں اپنی کارکردگی اور اہلیت سے اسٹیبلشمنٹ کے اس کھیل کو کمزور یا ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں جس بنا پر ان کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے جہاں تک مولانا فضل الرحمن ، ان کے احتجاجی مارچ اور ان کے سیاسی کردار کا سوال ہے تو ایک ہی تاثر قائم کرنے کی کوشش ہوئی کہ شاید اس مرحلہ پر انہیں در پردہ قوتوں کی حمایت حاصل ہے اور اس تاثر کا انہوں نے بہت حد تک فائدہ اٹھایا لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مولانا فضل الرحمن اپنے کسی سیاسی کردار کے ذریعہ مسند اقتدار پر پہنچ سکتے ہیں البتہ اتنا ضرور ہوا کہ ان کے احتجاجی مارچ کے نتیجہ میں بننے والے سیاسی دباؤ کا اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کو فائدہ ضرور ہوا ہے اور ہوگا اور حکومت کا دفاعی محاذ پر آ جانا ان کی بڑی سیاسی جیت ہے لیکن جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ وہ حکومت کو گرا سکتے ہیں تو فی الحال ایسا ممکن نظر نہیں آتا اور کوئی ایسا معجزہ ہو بھی جاتا ہے تو پھر یہاں کوئی سیاسی حکومت بن نہیں سکے گی، بن جائے گی تو چل نہیں سکے گی۔
کیا انتخابات ہونے کی صورت میں ہارنے والی جماعت انتخابی نتائج قبول کر لے گی؟ لہٰذا اہل سیاست کو نوشتہ دیوار پڑھنا چاہئے اور یہ جاننا چاہئے کہ احتجاجی مارچوں اور دھرنوں کے ذریعہ حکومتوں کو گرانے کا رجحان جمہوری سسٹم کے تسلسل کو قائم رکھ پائے گا ؟ اور یہی وہ بنیادی سوال ہے جس پر سب کو مل کر سوچنا ہے اور خصوصاً حکومت کو اپنی کارکردگی کا جائزہ لینے کے ساتھ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرتے ہوئے مسائل کے سیاسی حل کی طرف آنا ہوگا کب تک حکومت ریاست کے مفاد کے نام پر ریاستی اداروں کی تائید و حمایت کی بات کرتے چلے گی اگر واقعتا حکومت کو عوام کی تائید و حمایت حاصل ہے تو پھر انہیں مسائل زدہ عوام کی حالت زار پر توجہ دینی پڑے گی انہیں مہنگائی کے طوفان سے نکالنا پڑے گا ، بے روزگاری کے اژدھے سے ان کی جان چھڑانی ہوگی۔ اگر محض حکومتوں سے عوام کی امیدیں اور توقعات پوری نہ ہوں تو پھر پریشان حال عوام ادھر اُدھر دیکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حکومتی عدم کارکردگی کے باعث ہی ایک مذہبی جماعت کے احتجاج کو سیاسی محاذ پر اتنی اہمیت ملی کہ حکومت کو دفاعی محاذ پر آنا پڑا لہٰذا حکومت کے پاس ابھی وقت ہے کہ وہ اپنے مینڈیٹ پر گامزن ہو کر اپنی کارکردگی کو بڑھا سکتی ہے اور خصوصاً اس کیلئے انہیں مہنگائی، بے روزگاری کے آگے بند باندھنا ہوگا ایسا ممکن نہیں ہو سکتا کہ آئے روز بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے تو مہنگائی نہ ہو، یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ملک کے اندر سرمایہ کاری اور صنعتی عمل چل نہ پائے اور روزگار کی فراہمی ممکن ہو لہٰذا حکومت کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے انہیں اپنے مینڈیٹ سے جوڑنا پڑے گا۔ حالات و واقعات سے ثابت ہو رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو بڑا خطرہ اپوزیشن سے نہیں بلکہ خود اپنی کارکردگی سے ہے۔ حکومتیں ڈیلیور کرتی نظر آئیں تو اپوزیشن حکومت کیلئے چیلنج نہیں بنتی اور حکومتوں کی پالیسیوں کا محور عام آدمی ہو اور مقصد صرف حکومت چلانا ہو تو حکومتوں کے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے اور پھر وہ حالات کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں محض اداروں کی تائید و حمایت حکومت کے چلنے میں کارگر نہیں ہوتی۔ ریاستی ادارے حکومتوں سے زیادہ ریاست کے پابند ہوتے ہیں اور جب حکومتیں اپنی عدم کارکردگی کے باعث کمزور پڑتی ہیں تو پھر ادارے حکومت کو کندھا دینے کی بجائے ریاست کے مفادات دیکھتے ہیں لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ وہ اس امر کو مد نظر رکھے کہ ان کے پاس وقت کم اور غلطی کی گنجائش نہیں وہ صرف اور صرف ڈیلیور کر کے ہی قائم و دائم رہ سکتی ہے۔