لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) آرمی ایکٹ میں تبدیلی کا آئینی عمل پارلیمنٹ کے ذریعہ پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے مگر سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والے اتفاق رائے کے بعد سے سیاسی جماعتیں اپنے خیالات، نظریات، جذبات اور بیانیہ کے حوالے سے دفاعی محاذ پر آ کھڑی ہوئی ہیں اور سیاسی اور عوامی محاذ پر اپنے مؤقف کے حوالے سے وضاحتوں اور صفائیوں کا ایک سلسلہ قائم ہے مگر کسی بھی سطح پر ان کے اس مؤقف کے حوالے سے یکسوئی پیدا نہیں ہو پا رہی۔
سیاسی جماعتوں کے اندر بھی رد عمل موجود ہے اور سیاسی جماعتوں کے باہر ان کے فالوورز بھی کنفیوژ نظر آ رہے ہیں اور یہ بات ان کی سمجھ سے بالاتر محسوس ہوتی ہے کہ ایسا کیونکر ہوا اور کونسا ایسا عمل تھا کہ جس کی وجہ سے ایک دوسرے کو چور، ڈاکو، سلیکٹڈ اور کٹھ پتلی قرار دینے والے آخر کار سر جوڑے آئینی عمل کو آگے بڑھاتے نظر آئے اور اب بھی نیب کے ترمیمی آرڈیننس اور الیکشن کمیشن کے اراکین کی تقرری کے عمل کے حوالے سے اسی سپرٹ پر گامزن نظر آ رہے ہیں۔
یہ خالصتاً آئینی، قانونی اور پارلیمانی عمل ہے جس کی تکمیل سسٹم کے حوالے سے ناگزیر ہے مگر اس کا براہ راست فائدہ عوام کو نہیں مل سکتا، عوام کے حقیقی مسائل تو مہنگائی، بے روزگاری، غربت میں ہوشربا اضافہ ہیں۔ عوام تو ملک میں گورننس کا نفاذ اور جمہوریت کے ثمرات چاہتے ہیں اور اس حوالے سے فی الحال کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ چند روز قبل تک باہمی دست و گریبان سیاسی قوتیں آج دفاعی محاذ پر کیوں کھڑی ہیں۔
زمینی حقائق کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں جمہوریت اور سیاست ایک ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے اور اس عمل میں ہمیں بڑی سیاسی قوتوں سے کسی بڑی تبدیلی اور انقلاب کی توقع نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ یہ یہاں سیاسی جماعتیں منظم ہیں اور نہ ہی سیاسی جماعتیں سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں، ان کی ساری تگ و دو کا مطمع نظر صرف اور صرف اقتدار کا حصول ہے لہٰذا وہ عوامی طاقت پر اعتماد کرنے کی بجائے یہاں اس سیاست کا حصہ بن چکی ہیں جو طاقتور طبقات کی سیاست ہے اور طاقتور طبقات کی سیاست میں ہی سیاسی قیادتیں اپنے لئے راستہ بناتی نظر آتی ہیں۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ سویلین بالادستی کی جنگ کیونکر کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کیلئے سیاسی جماعتوں کو نہ صرف خود کو منظم کرنا ہوگا بلکہ معاشرے کے دیگر طبقات کو بھی اس جنگ میں شامل کرنے کی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی۔ اپنی سیاست کو مضبوط بنانے کیلئے عوامی تائید کے دعوؤں سے زیادہ خود کو عوامی مسائل سے منسلک کرنا پڑے گا اور سیاسی قوتوں کا بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ نہ صرف وہ خود کمزور ہوئیں بلکہ انہوں نے پارلیمنٹ کوبھی کمزور کر کے رکھ دیا۔ سیاسی فیصلے پارلیمنٹ کے ذریعے کرنے کی بجائے ان کیلئے ڈرائنگ رومز کا استعمال کیا گیا۔
پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کیلئے وزیراعظم خواہ کسی بھی جماعت کا ہو کبھی سنجیدہ نہیں رہے۔ نہ تو پارلیمنٹ مضبوط رہی اور نہ ہی پارلیمانی کمیٹیوں کو فعال بنایا گیا اور سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ سا ری سیاسی قیادتیں مشکل میں جمہوریت کی رٹ لگاتی اور سویلین بالادستی کے راگ الاپتی نظر آتی ہیں اور جب وہ اقتدار میں آ جاتی ہیں تو ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ اب تک کی صورتحال تو یہ ظاہر کرتی نظر آ رہی ہے کہ سیاسی قوتیں عوام کی طاقت پر یقین نہیں رکھتیں اور طاقت کے مراکز ان کی ترجیح ہیں لہٰذا اب ان کی سیاست کا دارومدار اور ان کی مشکل کا فیصلہ عوام نہیں وہی قوتیں کریں گی لیکن یاد رکھیں پھر ان کی سیاست کو جمہوری سیاست قرار نہیں دیا جا سکے گا۔