لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں دوسری مرتبہ کشمیر کاز اور کشمیر کی اندرونی صورتحال پر ہونے والی بریفنگ اور غور و خوض کو عالمی سطح پر ایک اہم پیش رفت کے طور پر لیا جا سکتا ہے کیونکہ 50 سال تک کشمیر کی ابتر صورتحال پر اٹھنے والی آوازوں کے باوجود سلامتی کونسل میں یہ مسئلہ نہ تو زیر غور آیا اور نہ ہی اندرونی صورتحال خصوصاً انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے عمل پر کوئی آواز اٹھی۔
لہٰذا اب دوسری مرتبہ کشمیر ایشو کے حوالے سے بلائے جانے والے اجلاس کے بارے میں رپورٹس یہی ہیں کہ سلامتی کونسل نے نہ صرف کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کیا بلکہ کشمیر کے اندر کی صورتحال خصوصاً انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے عمل کو ختم کرنے پر زور دیا گیا جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کشمیر جیسے سلگتے ایشو پر ایک بڑے بین الاقوامی فورم پر تحریک بھی موجود ہے اور تشویش کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے اور یہ پاکستان کے اصولی مؤقف اور خصوصاً کشمیر کاز کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہے اور یہ سلسلہ اگر جاری رہتا ہے تو یقینا اس کے مثبت اثرات اور نتائج ضرور ظاہر ہوں گے۔ لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ سلامتی کونسل کی تشویش پر مسئلے کے حل کے حوالے سے کیا پیش رفت ہو سکتی ہے اور مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے اور مقبوضہ وادی میں ہونے والی ریاستی دہشت گردی کو بے نقاب کرنے میں پاکستان کا کردار کیا تھا اور ہے اور کیا عالمی قوتیں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں مسلسل کرفیو کے سفاک عمل کو روکنے کیلئے کوئی کردار ادا کر سکتی ہیں ؟
جہاں تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اس کی قراردادوں پر عملدرآمد کا سوال ہے تو ہمیں یہ تسلیم کرنا لینا چاہیے کہ اقوام متحدہ کی ان قراردادوں پر عملدرآمد اور کشمیریوں کے مستقبل کے حوالے سے ہمیں جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ ہم نے نہیں کیا۔ ماضی میں حکومتیں کشمیر کو اپنا کور ایشو تو قرار دیتی رہیں، یوم یکجہتی کشمیر بھی منایا جاتا رہا، تقاریر بھی بہت ہوئیں اور اسمبلیوں سمیت ہر سطح پر قراردادوں کی منظوری کا سلسلہ بھی جاری رہا، مگر عملاً جو اس سلگتے ایشو کو عالمی مسئلہ بنانے اور بھارت کی جانب سے مقبوضہ وادی کے اندر کشمیریوں کی قتل و غارت اور ان پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے عمل پر اس کا سفاک اور مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کیلئے جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا نہیں کیا گیا اور یہی وجہ تھی کہ بھارت طاقت اور قوت کے ذریعہ کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے سرگرم رہا اور اس حوالے سے کوئی دو آراء نہیں کہ آج بھی مسئلہ کشمیر جو ایک مؤثر انداز میں دنیا کے سامنے چیلنج کی حیثیت سے کھڑا ہے۔ فوج گردی کے باوجود کشمیر پر بھارت کا تسلط قائم نہیں ہو سکا اور مسلسل کرفیو کا عمل ظاہر کر رہا ہے کہ جب بھی کشمیریوں کو آزادی سے سانس لینا ممکن ہو گا وہ پھر بھارت کے خلاف رد عمل کا اظہار کریں گے۔
یہی وجہ ہے کہ 30 لاکھ کشمیریوں کو بھارت نے محصور کر رکھا ہے مگر اسے اب بھی ان سے کسی خیر کی امید نہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت جان چکا ہے کہ کشمیری ان سے نفرت کرتے ہیں، نجات چاہتے ہیں اور اس سے کم پر راضی نہیں ہوں گے۔ دنیا کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ انہیں سب باتیں قبول ہو سکتی ہیں مگر وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں برداشت نہیں کرتے لہٰذا انہیں بتانا پڑے گا کہ کشمیری بھی گوشت پوست کے انسان ہیں، اور ان کے خون کا رنگ بھی سرخ ہے اور وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر جو جدوجہد کر رہے ہیں اس کا اختیار انہیں خود اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعہ ملا ہے جس پر بھارت نے ہمیشہ سے ضد اور ہٹ دھرمی کا اظہار کیا ہے، بین الاقوامی برادری اور فورمز ہی وہ پلیٹ فارم ہیں جہاں کشمیر ایشوز کو اجاگر کر کے ہم اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتے ہیں اور خود کشمیریوں کی آزادی کی منزل بھی آسان ہو سکتی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ سکیورٹی کونسل حرکت میں آئی اور چین سمیت بعض ممالک نے یہاں کشمیر کا ایشو اٹھایا یہ بات اقوام متحدہ کو بھی باور کرانا پڑے گی کہ آزادی کی اس تحریک کی بنیاد خود ان کی اپنی قراردادیں ہیں اور وہ اپنی ان قراردادوں پر عملدرآمد کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
جہاں تک حکومت کی جانب سے 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کے اعلان کا تعلق ہے تو یہ ایک خوش آئند امر ہے لیکن یوم یکجہتی کشمیر کے عمل کو پاکستان سے وسیع تر کرتے ہوئے دنیا کے سامنے اجاگر کرنا چاہیے اور اپنی اس پالیسی اور اقدامات کا جائزہ لینا چاہیے کہ 5 اگست کے بعد سے جاری رد عمل کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں اور دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کرانے، بھارت پر دباؤ بڑھانے کشمیر کاز کو مؤثر بنانے کیلئے کیا ان کے پاس قابل عمل پروگرام ہے ؟ اس لئے کہ پاکستان نہ صرف مسئلہ کا بنیادی فریق ہے بلکہ کشمیریوں کا وکیل بھی ہے اور کشمیر کاز کو ہمیں تکمیل پاکستان کے ایجنڈے کے طور پر لیتے ہوئے اس پر اپنا کردار ادا کرنا ہے۔