لاہور: (دنیا نیوز) آٹے کی قیمت بدستور آؤٹ آف کنٹرول ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار آٹا 70 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ عوام حکومت کی جانب سے سستے آٹے کے اقدامات کے نتائج کے منتظر ہیں۔
ایک ماہ پہلے چکی کا آٹا 4 روپے مہنگا ہو کر 64 روپے کلو ہوا اور اب چند روز میں مزید 6 روپے مہنگا کر دیا گیا۔ دیسی آٹا کھانے والے چکی مالکان کو من مانی قیمت ادا کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ روٹی کھائے بغیر بھی تو گزارہ نہیں ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ اب تو بے بسی کی انتہا ہو گئی، کوئی سننے والا ہے اور نہ ہی کوئی داد رسی کی امید ہے۔
ادھر چکی مالکان کا موقف ہے کہ اوپن مارکیٹ سے گندم 22 سو روپے من سے بھی مہنگی خرید رہے ہیں، سستا آٹا کیسے دیں؟ حکومت آٹا سستا کرانا چاہتی ہے تو 1500 روپے فی من گندم فراہم کر دے۔ دوسری طرف حکومتی اقدامات صرف اجلاسوں تک محدود ہی محدود ہیں۔
ملک کے دوسرے حصوں کی طرح فیصل آباد میں بھی آٹا عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے۔ بلیک میں گندم کی قیمت 2300 روپے فی من سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ آٹے کی قیمتیں بڑھنے پر شہری بِلبلا اُٹھے ہیں۔
آٹا چکی مالکان کہتے ہیں کہ گزشتہ کئی روز سے محکمہ خوراک نے ان کا گندم کا سرکاری کوٹہ بند کر رکھا ہے۔ اوپن مارکیٹ سے مہنگی گندم ملنے کی وجہ سے آٹا 70 سے 75 روپے فی کلو گرام کے حساب سے فروخت کر رہے ہیں۔ حکومت کوٹہ بحال کرے تو بحران اور قیمتوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
شہری حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آٹے اور گندم کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ عام آدمی باآسانی دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر سکے۔
گوجرانوالا اوپن مارکیٹ میں 20 کلو گرام آٹے کا تھیلا سرکاری ریٹ 805 کی بجائے 1050 روپے میں جبکہ چکیوں پر آٹا 70 روپے فی کلو گرام فروخت ہو رہا ہے۔ آٹے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے شہریوں کی پریشانی میں اضافہ کر دیا ہے۔
آٹے کو سرکاری ریٹ پر فروخت کرنے کے لیے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے سیل پوائنٹس تو قائم کیے گئے ہیں لیکن اوپن مارکیٹ میں آٹے کی روز بروز بڑھتی ہوئی قیمت بے قابو ہے۔ ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ کا کہنا ہے کہ مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ شہریوں نے حکومت سے تمام صورتحال کو نوٹس لے کر ترجیحی بنیادوں پر معیاری اورسستا آٹا فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ملتان کی عام مارکیٹ میں بھی آٹا 70 روپے فی کلو فروخت ہونے لگا جبکہ گندم کی فی من قیمت بھی 22 سو روپے سے تجاوز کر گئی ہے جس سے شہریوں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق شہر میں 46 فلور ملز اور 50 چکیوں کو روازانہ 9 ہزار 9 سو بوری گندم فراہم کر رہے ہیں تاہم جہاں پر آٹے کی قیمت زیادہ وصول کی جا رہی ہے ان کے خلاف کاروائیاں جاری ہیں۔
ادھر خیبر پختونخوا میں نانبائیوں نے روٹی کی قیمت میں اضافے کے لیے ہڑتال کر دی ہے۔ پشاور میں شہری روٹی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے۔ نانبائی کہتے ہیں 170 گرام روٹی کی قیمت 15 روپے مقرر کی جائے لیکن صوبائی حکومت نے ہڑتال کو بلا جواز قرار دے دیا ہے۔
ملک بھر طرح کوئٹہ میں بھی آٹے کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ چکیوں پر گندم ختم جبکہ فلور ملز والوں کو محکمہ خوراک کی جانب سے گندم مل نہیں رہی۔
ایک ہفتے کے دوران بازاروں میں فائن آٹا 8 روپے کے اضافے کے بعد 60 اور چکی کا آٹا 12 روپے کے اضافے سے 62 روپے بکنے لگا ہے۔ مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کے لئے روٹی کے نوالے کا حصول بھی دشوار ہو گیا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ آٹا ان کی قوت خرید سے باہر ہو چکا ہے۔
شہر کے مختلف علاقوں میں قائم چکیوں پر آٹا روزانہ کی بنیاد پر مہنگا ہو رہا ہے جبکہ فلور ملز میں گندم کا ذخائرہ نہیں ہے۔ بازاروں میں زیارہ تر آٹا پنجاب سے لایاجا رہا ہے۔ چکی والے مقامی زمینداروں سے گندم خرید رہے ہیں۔ فلور ملزمالکان کہنا ہے کہ بلوچستان میں آٹے کے بحران کا ذمہ دار محکمہ خوراک ہے۔ صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ پاسکو سے 5 لاکھ بوری گندم خریدنے کےلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔