کیا خان محصور ہو چکا ہے ؟

Last Updated On 25 January,2020 12:05 pm

لاہور: (امتیاز گل) جناب وزیر اعظم! جیسے میں نے اپنے پہلے خط میں نشاندہی کی تھی کہ آپ کے فیصلہ سازی اور ان پر عملدرآمد کے انداز نے پی ٹی آئی کے ہر اول دستے میں شامل حمایتیوں کے دل و دماغ کو بھی مایوسیوں سے بھر دیا ہے۔ آپ کے دفتر تک رسائی محدود تر ہو چکی ہے۔ بیوروکریٹ اور پی ٹی آئی میں شامل ہونیوالے ‘‘نو مرید’’ آپ کے گرد آہنی ڈھانچے کھڑے کر کے حقیقی دنیا کو آپ کی نظروں سے اوجھل کر چکے ہیں۔

اس وقت پی ٹی آئی کا سیاسی جوہر عملاً کھڈے لائن لگایا جا چکا ہے۔ کینسر نے آپ کے زندگی بھر کے ساتھی نعیم الحق کو لاچار کر دیا ہے۔ اسد عمر، جنہیں عملاً کابینہ سے نکال پھینکا گیا تھا کیونکہ انہوں نے آئی ایم ایف سے ڈیل میں ٹانگ اڑانا چاہی، کابینہ میں بطور وزیر پلاننگ واپس آ چکے ہیں لیکن ان کی حیثیت ثانوی نوعیت کی ہے۔ اسد عمر کا قصور کیا تھا ؟ ایسا کیا کمال تھا جسے اسد عمر نہ پاسکے اور حفیظ شیخ نے پا لیا ؟ 6 ارب ڈالر کا وہ پیکیج جس نے بے انتہا مہنگائی کے سیلاب کو جنم دیا ؟ ہم آج بھی اسد عمر کے ساتھ روا رکھے جانے والے شرمناک سلوک بارے سوالات کے جواب کھوج رہے ہیں۔ کیا یہ اتفاقی امر ہے کہ اسد عمر کے تحت کام کرنے والے ایف بی آر کے سابق چیئرمین جہانزیب خان، اب پلاننگ کمیشن میں تعینات کیے جا چکی ہیں کہ وہ خصوصی اقدامات کے وزیر کے طور پر ایک بار پھر اسد عمر کو ناکام کریں ؟ اسد کا ناقابل شکست دشمن ؟ ادویات کی قیمتوں میں ہوئے ہوشربا اضافے کو جواز بنا کر آپ اپنے ایک اور ساتھی عامر کیانی کو بھی قربان کر چکے ہیں۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ اس وقت وزیر تھے جب ادویات کی قیمتوں میں حقیقت پسندانہ ایڈجسٹمنٹ کا عدالتی حکم نافذ کیا گیا۔ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ تو پی ایم ایل این کے دور حکومت میں ہی ہو چکا تھا۔ اگر کیانی نے اس معاملے میں کوئی گڑبڑ کی تھی تو ان کے خلاف کوئی کیس کیوں نہیں بنایا گیا ؟ آپ کے ایک اور دیرینہ ساتھی افتخار درانی کہاں ہیں ؟ کیا وہ ان لوگوں میں شامل نہ تھے جنہوں نے مختلف معاملات پر پی ٹی آئی کے بیانیے کی تشکیل میں مدد کی ؟ آپ کے گرد جو لوگ جمع ہیں انہوں نے سابقہ فاٹا کے انتخابات میں پارٹی کی مدد کے نام پر انہیں آپ سے دور کیا۔ اب وہ کہاں ہیں ؟ فیصلہ سازی کے عمل میں بڑھتے ہوئے ‘‘افسر شاہی’’ انداز کا ایک اور نشانہ آپ کے دیرینہ ساتھی شہریار آفریدی بھی بنے۔ آپ نے ان پر اعجاز شاہ کو ترجیح دی، اس کی وجوہات سے صرف آپ ہی آگاہ ہیں۔ آپ کے آس پاس موجود بیورو کریسی  جس کے سرخیل اعظم خان ہیں  جانے پہچانے اے این پی حمایتی اور فوج مخالف اشخاص کا گروہ ہے۔ ارباب شہزاد جن کا انتخاب آپ نے کے پی سے کیا وہ اسٹیبلشمنٹ سے متعلق امور میں آپ کے مددگار ہیں، اور جہانزیب خان  آج کل آپ کی گورننس کے افسر شاہی انداز کا نمونہ بنے ہوئے ہیں  کیا ان لوگوں نے آختہ کر کے سیاسی فیصلہ سازی کے عمل کو ٹھُس نہیں کر دیا ؟ گندم، آٹے کے بحران کی ذمہ داری آپ کس پر ڈالیں گے ؟ اپنے ارد گرد پھیلے بیورو کریٹوں پر یا اپنے پارٹی ممبران پر ؟ اگر موخر الذکر اس کے ذمہ دار ہیں تو پارٹی کے پرانے اراکین کہاں ہیں ؟ یہ تازہ ترین بحران  واضح طور پر یہ مفاد پرستی کا شاخسانہ ہے اور اس کا سبب وہی لوگ ہیں جو اس سے پہلے آپ کے سیاسی مخالفین کی گود میں بیٹھے تھے  گورننس کے کلیدی معاملات میں نااہل اور وژن کی کمی کے قطار اندر قطار جمع لوگوں کی جانب سے پیش کیا جانے والا شاہکار ہے۔ اور حقیقی معنوں میں ان سب کو بیوروکریسی چلا رہی ہے۔ ندیم افضل چن، خسرو بختیار، رزاق داؤد، ندیم بابر اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان جیسے لوگ روایتی مفاد پرست سیاسی طبقے یعنی سٹیٹس کو کے نمائندہ ہیں۔ آپ کے چاہنے والوں کو ابھی بھی آپ کے وہ نعرے یاد ہیں کہ ‘‘ہمیں سٹیٹس کو سے لڑنا ہے ’’ لیکن وہ تمام لوگ جنہوں نے پی ٹی آئی کے اس بیانیے کے ذریعے صورتحال کو تبدیل کیا اب نکالے جا چکے ہیں۔

جناب وزیر اعظم کوئی محاسبۂ نفس ؟ شاید آپ بھول گئے ہیں کہ کاروباری اشخاص سے (جنوری، 21) کو ہوئی ملاقات میں جب افسر شاہی انداز کا ٹیکس سسٹم پیش کیا گیا تھا تو شبر زیدی اس پر پھٹ پڑے تھے۔ اب وہ بھی بیورو کریسی کے مذموم مقاصد کو ناکام بنانے کے مشکل چیلنج سے جھوجھ رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو افسر شاہی کے گہرے مفادات کو لگام دینے میں ناکام رہے اور آپ ان کا انجام جانتے ہیں۔ آپ کا معاملہ  اب تک  کوئی مختلف نہیں لگتا۔ کیا لاشعوری طور پر خود کو بچانے کیلئے آپ نے اپنے اختیارات افسر شاہی کو سونپ دیئے ہیں ؟۔

جناب وزیر اعظم! شریفوں کے پاس ایک البیتروس تھا، فواد حسن فواد۔ آپ نے اپنے پاس ایسے دو پرندے رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن اس میں ایک بنیادی فرق اور بھی ہے ؛ فواد نے بڑی تندہی سے اپنے سیاسی آقاؤں کی خدمت کی تھی۔

تاہم یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے گرد موجود کلیدی اشخاص اپنے سیاسی مالک کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں اور ان کی رسائی پی ٹی آئی کی بنیادی ٹیم کو پیچھے ہٹا دینے کی وجہ سے زیادہ گہری ہوتی جا رہی ہے۔ کیا آپ اس وقت انہی لوگوں کے گھیرے میں نہیں ہیں جو سٹیٹس کو کے محافظ ہیں  افسر شاہی بھی اور سیاسی مفاد پرست بھی  کسی البیتروس کو نجات دہندہ سمجھنا جان لیوا غلطی ثابت ہو سکتی ہے، آپ اور آپ کے سٹیٹس کو مخالف نظریات کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ اس وقت توازن بری طرح کلونیل افسر شاہی باقیات کے حق میں جھکا ہوا ہے۔ جناب وزیر اعظم اس وقت بیورو کریسی نے آپ کی آنکھوں اور کانوں کو بھی مفلوج کر رکھا ہے: یعنی سویلین انٹیلی جنس ادارہ ، انٹیلی جنس بیورو۔ یہ ادارہ معلومات کے حصول کیلئے درکار ایک لازمی عنصر ہے ۔ یہ حقیقی خطرات کا اندازہ قائم کرنے اور قبل از وقت تزویراتی نوعیت کی پیش بینی کیلئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ آپ کے مخالفین نے گزشتہ ایک دہائی میں اس ادارے میں بڑی سرمایہ کاری کی۔ اور اب بھی وہی لوگ اس کو چلا رہے ہیں اور پی ٹی آئی کے تمام مخالفین کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ عام لوگوں نے عموماً اور آپ کے پارٹی کارکنان نے خاص طور پر اینٹی بدعنوانی اور اینٹی سٹیٹس کو نعرے بازی کی بھاری مقدار برداشت کی ہے۔ مقبول عام توقعات کے برعکس آپ دن بدن سٹیٹس کو کے حامیوں کی جانب ہی پھسلتے جا رہے ہیں حالانکہ یہ ان کیلئے کڑا وقت ثابت ہونا چاہیے تھا۔ مایوسی کی بڑھتی ہوئی لہر کو روکنے کا واحد راستہ اپنے بنیادی نظریات کی جانب لوٹ جانا ہے نہ کہ انہیں ترک کرنا۔
 

Advertisement