لاہور: (دنیا میگزین) مودی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی آبادی کے بارے میں گمراہ کن اعداد و شمار جاری کر دئیے جس میں مقبوضہ کشمیر کا مسلم اکثریتی تشخص ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔
٭جموں و کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد اب سرکاری اعدادوشمار میں مسلم اکثریتی علاقے وادی کشمیر کی آبادی 10 گنا سے زیادہ کم دکھائی گئی ہے۔ کیا یہ خاص منصوبہ بندی کا حصہ نہیں اور مسلم آبادی کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں؟
٭بھارتی وزارت داخلہ کی سرکاری ویب سائٹ(ایم ایچ اے) کے اعداد و شمار کے مطابق مقبوضہ وادی کشمیر میں کل 5,35,811 مستقل شہری ہیں جبکہ جموں کے علاقے میں 69,07,623 اور لداخ کے2,90,492 رہائشی ہیں۔
٭بھارتی مردم شماری کے اعدادوشمار کے مطابق مقبوضہ وادی کے کشمیر خطے کی اصل آبادی 59 لاکھ سے زائد ہے۔
٭وزارت داخلہ کے اعداد و شمار مقبوضہ جموں وکشمیر کی کل آبادی 1 کروڑ25 لاکھ48 ہزار926 ظاہر کر ہے ہیں۔
٭وادی کشمیر میں مسلمان 95 فیصد، جموں میں 28 فیصد اور لداخ میں 44 فیصد ہیں۔
٭جموں میں ہندو 66 فیصد اور لداخ میں بودھ 50 فیصد کے ساتھ اکثریت میں ہیں۔
٭وادی کشمیر کے 10 اضلاع میں کپواڑہ ، بانڈی پورہ ، بارہمولہ ، سری نگر ، بڈگام ، گاندربل ، پلوامہ ، کولگام ، شوپیاں اور اننت ناگ شامل ہیں۔
٭ایک بھارتی اخبار کے مطابق ایم ایچ اے کے اعداد و شمار مردم شماری 2011 ء کے نتائج غلط قرار دے رہے ہیں، ایم ایچ اے نے 3 خطوں کی مجموعی آبادی کو غلط طور پر ظاہر کیا جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت کی طرف سے چلائی جانے والی ایک سرکاری ویب سائٹ میں اپنی ہی مردم شماری کو غلط انداز میں بیان کرنا شکوک و شبہات کو جنم دے رہا ہے۔۔
یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ بھارتی آئین مقبوضہ کشمیر کے بارے میں کیا کہتا ہے ؟بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے۔آرٹیکل 370 ریاست مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے، اسے برقرار رکھنے، اپنا پرچم رکھنا، دفاع، خارجہ و مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی دیتا ہے۔بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔ آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا ہے۔جبکہ مودی ڈاکٹرائن سب الٹ پلت کر رہی ہے یہی وجہ ہے کہ بھارت کے انصاف پسند اور آئین پسند عوام سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں اور اب وہ بھی مقبوضہ کشمیر کیلئے آواز اٹھا رہے ہیں۔
یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ مودی ٹیم مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کیا کچھ کر رہی ہے ،کیا کچھ مزید کرنا چاہتی ہے اور پاکستان کی جانب سے کیوں ’’خود ساختہ حملے‘‘ کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ؟ لیکن ہم حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے چند دلائل اور چند اہم خبروں کو آپکے سامنے لانے کی کوشش کریں گے جس سے آپ خطے میں جنم لینے والے خدشات اور مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے مودی ڈاکٹرائن کی حکمت عملی سے آگاہ ہو سکیں گے ۔ ذرا غور کریں تو صاف نظر آتا ہے کہ مودی سرکار نے5 اگست کو راجیہ سبھا میں بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی اور ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو نئی دہلی کے زیرِ انتظام 2 حصوں یعنی (UNION TERRITORIES) میں تقسیم کردیا تھاجس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہو گا ۔ پھر یہ دونوں بل پارلیمان سے بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کروا ئے گئے تب سے اب تک مقبوضہ کشمیر اذیت ناک جیل کا منظر پیش کر رہا ہے،5ماہ سے زائد عرصے سے مسلسل کرفیو ، لاک ڈائون کی بھیانک صورتحال ہے جس کے باعث اشیائے خورونوش کی شدید قلت ہے، مریضوں کیلئے ادویات ختم ہوچکی ہیں، ریاستی جبر و تشدد کے نتیجے میں متعدد کشمیری شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔ مودی حکومت نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے قبل ہی مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوجی دستے تعینات کردئیے تھے کیونکہ اسے معلوم تھا کہ کشمیری اس اقدام کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی تعداد اس وقت 9 لاکھ کے قریب ہے۔ خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے وادی بھر میں کرفیو نافذ ہے، کئی بڑے اخبارات بھی شائع نہیں ہورہے انتظامیہ نے پورے کشمیر کو چھاؤنی میں تبدیل کررکھا ہے۔ بھارت میں بھی مقبوضہ کشمیر کے عوام سے ہونیوالے سلوک پر شدید احتجاج کیا جا رہا ہے لیکن صورتحال جوں کی توں ہے اور بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے اُلٹا ہر گزرتے دن کیساتھ کشمیریوں کی اذیتوں اور مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو صرف جنوبی ایشیاء کیلئے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے خطرے کا باعث ہیں۔
اس سے پہلے کہ کوئی انسانی المیہ جنم لے دنیا کو اس مسئلے کو سلجھانا ہو گا یہاں ہیومن رائٹس واچ کی سالانہ رپورٹ کا تذکرہ ضرور ہے ۔ تنظیم کی سالانہ رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کے مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں مکمل شٹ ڈاؤن کے ذریعے تباہی کو چھپانے کی کوشش کی، سخت محاصرہ کرتے ہوئے اضافی فوجی تعینات کیے سابق وزرائے اعلیٰ، سیاسی رہنماؤں ، کارکن ، وکلاء اور صحافی بغیر الزام کے نظربند ہیں جبکہ انٹرنیٹ ،موبائل فون سروس معطل ہے۔ فوجی محاصرے کے باعث کشمیری بدستور مشکلات کا شکار ہیں، کشمیریوں نے انٹرنیٹ کی جزوی بحالی کے دعوے کو بھی سختی سے مسترد کر دیا ہے ۔ ہیومین رائٹس واچ نے کشمیری بچوں کیلئے حراستی مراکز کے منصوبے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تنظیم کی ڈائریکٹر جنوبی ایشیا ء میناکشی گنگولی نے کا کہناہے کہ بھارت کے چیف آف ڈیفنس سٹاف (سی ڈی ایس) جنرل بپن راوت نے کشمیری بچوں سے متعلق جو بیان دیا اور بچوں کو حراستی کیمپوں میں ڈالنے کی بات کی اس پر ہمیں تشویش ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار پر تنقید نہ کرنے کے وعدے پر کئی افراد کو رہا کر دیا گیا مگر اب بھی سابق وزرائے اعلیٰ سمیت بے شمار لوگ قید ہیں،کشمیر میں5 ماہ سے پابندیاں ہیں حکام کو خوف ہے کہ کشمیری بھارتی آئین کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو فراہم کی جانے والی خودمختاری کی منسوخی پر احتجاج کر سکتے ہیں۔
مزید برآں مقبوضہ کشمیر کی تشویشناک صورتحال کو دیکھتے ہوئے امریکی سینیٹر کوری بوکر نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت یکطرفہ طور پر تبدیل کیے جانے کے معاملے پر سینیٹ میں قرارداد لانے کا عزم ظاہرکیا ہے۔ سینیٹر کوری بوکر نے اپنے اعزاز میں واشنگٹن میں منعقدہ تقریب کے بعد خصوصی ویڈیو پیغام میں کہا کہ امریکن پاکستانی پبلک افیئرز کمیٹی انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے غیر معمولی اقدامات کررہی ہے۔مقبوضہ کشمیر کی حیثیت یکطرفہ طور پر 5 اگست کو تبدیل کیے جانے کے بارے میں سینیٹر بوکر کا کہنا تھا کہ اہمیت اس بات کی ہے کہ سب ہم آواز ہوں، اس وقت خاموشی اختیار کرنا، ساز باز کے مترادف ہے جو نہیں ہونی چاہیے۔ سینئر سینیٹرز خصوصاً وہ جن کا تعلق امور خارجہ کمیٹی سے ہے، کے ساتھ مل کر کشمیر کے معاملے پر قرارداد لانے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں اور مطالبہ کررہے ہیں کہ کشمیر میں انسانی حقوق کا احترام کیا جائے اور آزادی اظہار کا حق دیا جائے۔امریکن سینیٹر کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کو سنگین نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے اور وہاں جو کچھ ہورہا ہے اس کے بارے میں شفاف صورتحال سامنے نہیں آرہی۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ کشمیر کے معاملے میں متحد ہوکر ایک آواز سامنے لائی جاسکے گی۔
بھارتی چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بیپن راوت نئی دہلی میں ایک کانفرنس سے خطاب میں اعتراف کر چکے ہیں کہ ’’بھارتی حکام کشمیری نوجوانوں اور بچوں کو ’’ڈی ریڈیکلائزیشن‘‘ کے بہانے غیرقانونی ٹارچر کیمپوں میں رکھنے کا منصوبہ بنا رہی ہے ۔ بڑی تعداد میں کشمیری بچے انتہاپسندی کی طرف مائل ہو رہے ہیں، ان (بچوں) کی نشاندہی کی ضرورت ہے تا کہ انہیں ڈی ریڈیکلائزیشن کیمپوں میں رکھا جا سکے۔ ‘‘کیایہ اعتراف پریشان کن اور دنیا کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی نہیں، بھارتی جنرل کی یہ بات ثابت کرتی ہے کہ بھارت نے کشمیریوں کے ساتھ ظالمانہ رویہ اپنا رکھا ہے اور انکی نسل کشی کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ عالمی اداروں کو اسکا نوٹس لینا ہو گا اور مودی ڈاکٹرائن کو کشمیریوں پر ظلم کرنے سے روکنا ہو گا وگرنہ خطہ عدم استحکام سے دوچار ہو گا ۔
امن کیلئے کردار ادا کرنے کی تیاری
واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کے ہمراہ پریس کانفرنس اور امریکہ کے مشیر برائے قومی سلامتی ایمبسڈر رابرٹ او برائن سے ملاقات میں وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے صاف اور واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ہم نے مشکل امریکی توقعات پوری کردیں، اب امریکہ کرے،مودی حکومت مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بدل رہی ہے، بھارت میں شہریت بل کیخلاف مظاہرے کرنیوالوں پر تشدد قابل مذمت ہے،بھارتی مظالم نظر نہیں آتے تو امریکہ عینک بدلے،واشنگٹن سے کہہ دہا بھارت نے ’’فالس فلیگ آپریشن ‘‘ کیا توجواب دیں گے ایران اور سعودی عرب امہ کو کمزور کرنا نہیں چاہتے، طالبان تشدد کے خاتمے کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ مودی سرکار مقبوضہ جموں وکشمیر کی ڈیمو گرافی تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہی آرٹیکل35 اے ختم کرکے مقبوضہ جموں وکشمیر کی ایک اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش ہورہی ہے اس پر ہمیں تشویش ہے اور اس پر ہم بات کررہے ہیں، مقبوضہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں، اقوام متحدہ کے سربراہ نے بھارت کے مئوقف کی نفی کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے بھی کہا کہ اگر بھارت نے فالس فلیگ آپریشن کیا تو پاکستان جواب دے گا۔ امریکہ سے کہہ دیاآپ کی مشکل توقعات نبھا دی ہیں، مگر ہماری توقعات کا کیا ہوا؟پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے آیا، امریکہ نے افغان طالبان کی بااختیار کمیٹی کا مطالبہ کیا جو پوراہوا ، 2امریکی مغویوں کی بازیابی میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا۔ مائیک پومپیو کو بتایا کہ کسی تنازعے کا حصہ نہ بننا چاہتے ہیں اور نہ ہمیں بننے کی خواہش ہے ، وزیر اعظم عمران خان نے اس حوالے سے اپنا واضح مئوقف پیش کردیا ہے کہ ہم امن کیلئے شراکت دار بن سکتے ہیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ نے امریکی صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی رابرٹ اوبرائن اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ملاقاتیں کیں۔ شاہ محمود قریشی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ نے کوئی نیا مطالبہ نہیں کیا،جب امریکی وزیر خارجہ 2018ء میں پاکستان تشریف لائے تھے تو میں نے ان سے کہا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو ’’ری سیٹ‘‘ کرنے میں میں دلچسپی رکھتا ہوں۔اس پر پومپیو نے کہا تھا کہ پاکستان سے متعلق امریکی پالیسی میں تبدیلی ہو گی تو براستہ کابل ہو گی، امریکہ نے ہم سے مطالبہ کیا کہ طالبان کو قائل کرکے میز پر لے آئو تو ہم لے آ ئے، ہم سے آپ نے جو توقعات کی تھیں وہ آسان نہیں تھیں ، مشکل تھیں ہم نے انہیں نبھا دیا، کچھ ہماری توقعات بھی تھیں اس پر آپ کی پیشرفت کیاہے۔ امریکہ سے کہا ہے کہ پاکستان کے حوالے سے اپنی ٹریول پالیسی پر نظر ثانی کرے، اس کی ٹریول ایڈوائزری پاکستان میں سیاحت کے حوالے سے رکاوٹ ہے امریکی وزیرخارجہ کو تشویش سے آگاہ کیا کہ بھارت کی کسی حرکت سے خطہ متاثر ہو سکتا ہے،5ماہ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مقبوضہ کشمیر پر دوسری نشست ہونا بھارتی مئوقف کی نفی ہے کہ یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے ۔خدشہ یہ ہے کہ بھارت کوئی فالس فلیگ آپریشن نہ کرے اور اگر وہ فالس فلیگ آپریشن کرتا ہے تو ہمیں نہ چاہتے ہوئے اس کا بروقت اور مناسب جواب دیناہو گا، آج بھارت میں آزادی اظہار پر قدغن ہے ، مظاہرین پر وحشیانہ تشدد کیا جاتا ہے، شہریت پر مسلمانوں کا حق ختم کیا جا رہا ہے.مقبوضہ کشمیر میں نماز جمعہ کی اجازت نہیں دی جارہی،ہمارے ہاں آجائیں دیکھیں مندروں میں کوئی رکاوٹ ہے، گرجاگھروں میں کوئی رکاوٹ ہے کیا؟ مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر پاکستان کا ارادہ ثالثی کا نہیں ، مقصد کشیدگی کا خاتمہ ہے، امن کیلئے کردار ادا کرنے کو تیارہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ وہ کشیدگی کا خاتمہ چاہتا ہے ، ایران جنگ میں الجھ کر امہ کو کمزورنہیں کرنا چاہتا، سعودی عرب نے بھی یہی کہا ہے کہ وہ امہ کی تقسیم نہیں چاہتا۔
افغان امن کے معاملے میں بھی شاہ محمود نے امریکی وزیر خارجہ پر واضح کیا کہ 1980ء کے عشرے کی غلطی نہیں دہرائی جانی چاہیے اور امریکی افواج کے انخلا کے عمل میں پوری ذمہ داری سے کام لیا جانا چاہیے۔ ایران اور سعودی عرب کے حالیہ دوروں پر بھی انہوں نے امریکی ہم منصب کو اعتماد میں لیتے ہوئے بجا طور پر ایران کے ساتھ تنازع بڑھانے سے گریز کا مشورہ دیا تاکہ خطے کو بدامنی کا شکار ہونے سے محفوظ رکھا جا سکے۔ امریکی حکام ان معاملات میں درست رویہ اختیار کرکے جنوبی ایشیا ہی نہیں عالمی امن کا قابلِ اعتماد بندوبست کر سکتے ہیں جبکہ برعکس طرزِ عمل عالمگیر تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی خطے میں امن کی خواہش و پیشکش کے برعکس بھارت کے چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت بھی مودی کی زبان بولنے لگے ہیں۔ دہلی میں ہونے والی سالانہ رئیسینا کانفرنس سے خطاب میں جنرل راوت نے کہا کہ دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے سخت گیر نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے جس طرح امریکہ نے نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد دہشتگرد گروہوں کا قلمع قمع کیا تھاجب تک دہشتگردی کی سرپرستی کرنے والی ریاستیں موجود ہیں ، ہمیں اس لعنت کے ساتھ رہنا پڑے گا، ہمیں اس کی بنیادی وجہ پر حملہ کرنا چاہئے۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ ختم ہونیوالی ہے تو ہم غلط ہیں۔
سلامتی کونسل کے 2 اجلاس اورچین کا واضح مؤقف
مقبوضہ کشمیر کی کشیدہ صورتحال اور لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گذشتہ برس دسمبر میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو خط لکھ کرکشمیر کی صورتحال پر توجہ دلائی تھی۔ سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے میں چین نے کلیدی کردار ادا کیا۔اجلاس میں سلامتی کونسل نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر ایک بار پھر غور کیا ، امن آپریشنز اور سیاسی امور کے محکموں نے بریفنگ دی،بریفنگ کے بعد کونسل کے ممبران کے درمیان صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا جس میں کونسل کے تمام 15 ممبران نے مباحثے میں حصہ لیا۔ اجلاس کے بعد اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب زینگ جن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کشمیرکی صورتحال پر سلامتی کونسل کی میٹنگ ہوئی جس میں مقبوضہ کشمیر کی زمینی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ کشمیر ہمیشہ سے سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں شامل ہے اورچین کا کشمیر کے معاملے پر مؤقف بالکل واضح ہے۔اقوام متحدہ میں روس کے مستقبل مندوب دمتری پولیانسکی نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان کہا کہ’’ سلامتی کونسل کے بند کمرہ اجلاس میں کشمیر کا معاملہ زیر بحث آیا ۔ روس پاکستان اور بھارت کے تعلقات معمول پر لانے کا خواہاں ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ شملہ معاہدے اور لاہور اعلامیہ کی بنیاد پر دو طرفہ کوششوں کے ذریعے دونوں ملکوں کے اختلافات دور ہوجائیں گے۔ ‘‘ان دو اہم بیانات کے بعد یہ کہا جائے کہ مقبوضہ کشمیر کا معاملہ زیر بحث نہیں آیا سراسر ڈھٹائی اور حقائق سے منہ موڑنے والی بات ہے ۔یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ گذشتہ 6 ماہ کے دوران دوسری مرتبہ سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا۔ اس سے قبل گزشتہ برس اگست میں تقریباً 50 برس بعد مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا تھا ۔
چین نے بھارتی دباؤ مسترد کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ بھی کیا ۔ ترجمان چینی وزارت خارجہ گینگ شوانگ کیمطابق سلامتی کونسل کے ارکان کو کشمیر کی حالیہ صورتحال پر تشویش ہے بھارت کو سلامتی کونسل کی درخواست پر عمل کرنا چاہیے ۔ اس سے قبل یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ بھارت نے چین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سلامتی کونسل اجلاس میں مسئلہ کشمیر اٹھانے سے گریز کرے بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا تھا کہ چین کو مسئلہ کشمیر کے بارے میں عالمی اتفاق رائے پر غور کرنا چاہیے اور اسے اقوام متحدہ میں اٹھانے سے گریز کرنا چاہیے مقبوضہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ معاملہ ہے لیکن سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک چین نے بھارت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر یواین چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے ۔ترجمان چینی وزارت خارجہ گینگ شوانگ نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں کہا ’’ چین کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، یہ تاریخی تنازع ہے ‘‘ گنگ شوانگ نے بیجنگ میں پریس بریفنگ سے خطاب میں تنازع کشمیر پر اپنے ملک کے دوٹوک اور منصفانہ موقف کو ایک بار پھر اِن غیر مبہم الفاظ میں دہرانے کیساتھ ساتھ 15 رکنی سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس کے حوالے سے یہ اہم انکشاف بھی کیا کہ کونسل کے بیشتر ارکان کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال پر گہری تشویش ہے اور وہ اس دیرینہ مسئلے کے بین الاقوامی قانون کے تحت حل کیے جانے کی ضرورت شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ ترجمان نے بتایا کہ اجلاس میں کونسل کا اہم رکن روس بھی مسئلہ کشمیر پر کھل کر بولا جبکہ دوسرے ارکان نے واضح طور پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ چینی ترجمان کا یہ اظہارِ خیال اس امر کا یقینی ثبوت ہے کہ کشمیریوں کی قربانیاں رنگ لا رہی ہیں۔ مودی ٹیم نے اُن کے حوصلوں کو شکست دینے کیلئے کھلی وحشت و درندگی کا جو ہتھیار آزمایا، اس کے نتائج الٹے نکلے اس کے نتیجے میں دنیا پر مودی حکومت کا بھیانک چہرہ پوری طرح بے نقاب ہوگیا ہے اور کشمیریوں کو انکا حق ملنے کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔ اس حقیقت کا اندازہ چینی ترجمان کے ان الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیر پر سلامتی کونسل کے تازہ جائزہ اجلاس کے بعد کشیدگی میں کمی اور مسئلے کے حل کی جانب پیش رفت کا امکان بڑھا ہے اور اب بھارت کو سلامتی کونسل کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے بین الاقوامی قانون کے مطابق حل کی ضرورت کے اظہار پر سنجیدہ طرزِ عمل اختیار کرنا ہوگا۔
سرحدی تنازعات اور تعیناتیوں کی ذمہ داری بپن روات کے سپرد کیوں ؟
مودی ڈاکٹرائن نے ایک اور اہم فوجی حکمت عملی اپنائی ہے جس کے اثرات کسی ایک ملک پر نہیں بلکہ پورے خطے پر مرتب ہونگے تازہ ترین اطلاعات کے مطابق خطے میں چینی اثر و رسوخ کم کرنے یا اس کا توڑ کرنے کیلئے مودی سرکارنے سری لنکا سے فوجی تعلقات مضبوط کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے ۔مودی ٹیم اور سری لنکا نے سیکورٹی کے حوالے سے گفتگو کے بعد فوجی تعلقات مضبوط کرنے اورپڑوسیوں کیساتھ میری ٹائم رابطے بڑھانے کے عزم کا اظہار کیاہے۔اس عزم کا اظہار سری لنکن صدر کے دفتر کی جانب سے کیا گیا ہے ،دونوں ممالک کے درمیان میری ٹائم ریسرچ کو آرڈینیشن سینٹر کے قیام پر گفتگو کی اطلاعات بھی آ ئی ہیں ۔ غیرملکی خبررساںادارے کے مطابق چین ، جو کہ بھارت کا طویل عرصے سے علاقائی حریف رہا ہے، خطے میں اپنے اقتصادی اقدامات کو طول دے رہا ہے جس کے تحت سری لنکا اور مالدیپ میں پورٹس اور ایکسریس وے کی تعمیر اور ایئرپورٹس کی تزئین و آرائش شامل ہے۔ سری لنکن صدر کے دفتر کا کہناہے کہ چند روز قبل بھارت کے مشیر قومی سلامتی اجیت ڈوول نے حال ہی میں منتخب ہونے والے سری لنکن صدر گوٹابایا راجہ پکسا سے ملاقات کی اور میری ٹائم ریسرچ کو آرڈینیشن سینٹر کے قیام کے حوالے سے گفتگو کی،دفتر کی جانب سے اس مجوزہ سینٹر کے بارے میں مزید تفصیلات سامنے نہیں لائی گئیں تاہم یہ ضرور بتایا گیاکہ خطے کے دیگر ممالک مبصرین کے طور پر اس میں شامل کیے جائیں گے یعنی چین اور اس کے ساتھی ممالک پر گھیرا تنگ کیا جائیگا ۔
یہاں ہم آپ کو ایک اور اہم پیش رفت کے بارے میں بھی آگاہ کرتے چلیں کہ بھارتی چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت کی قیادت میں نو تشکیل شدہ محکمے ڈیپارٹمنٹ آف ملٹری افیئرز (ڈی ایم اے) بھارت کے پڑوسی ممالک سے متعلق معاملات کو دیکھیں گے جس میں سرحدی تنازعات، واقعات، اگلے محاذوں پر انفراسٹرکچر کی ڈویلپمنٹ اور افواج کی تعیناتیوں کو دیکھیں گے ان پڑوسی ممالک میں چین، پاکستان اور بھوٹان شامل ہیں۔ بھارتی میڈیا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ نئے احکامات کے تحت سری لنکا، نیپال اور مالدیپ جیسے دوست ممالک کو اسلحہ اور گولہ بارود کی فراہمی بھی ڈیپارٹمنٹ آف ملٹری افیئرز کے تحت آئے گی۔ وزارت دفاع کے ماتحت یہ نیا محکمہ پہلے سے موجود 4 محکموں کیساتھ ساتھ علیٰحدہ طور پر کام کریگا جن میں ڈیفنس، ڈیفنس پروڈکشن، ڈیفنس ریسرچ اور ڈویلپمنٹ اینڈ ایکس سروس ویلفیئر شامل ہیں۔ ڈی ایم اے کا اسٹاف دو جوائنٹ سیکرٹریز، 13 ڈپٹی سیکریٹریز، 25 انڈر سیکریٹریز اور 22 سیکشن آفیسرز پر مشتمل ہوگا۔ بحیرہ ٔہند خطے، افغانستان، مغربی ایشیاء اور جنوب مشرقی ایشیاء میں بدلتی صورتحال پر نظر رکھنا بھی ڈی ایم اے کی ذمہ داری ہوگی۔ بپن راوت نے 31 دسمبر کو بھارت کے پہلے چیف آف ڈیفنس سٹاف کا عہدہ سنبھالا ہے اور وہ تینوں مسلح افواج کے معاملات میں وزارت دفاع کے پرنسپل ملٹری ایڈوائزر کے طور پر بھی کام کریں گے۔ اسی طرح سیاچن گلیشئرز میں انسداد شدت پسندی آپریشنز سے متعلق معاملات کو بھی ڈی ایم اے ہی دیکھے گی۔ ڈی ایم اے کی ذمہ داریوں میں آرمی کی تشکیل نو، بھارتی فضائیہ کے آپریشنل معاملات اور بیرون ملک جنگی جہازوں کی تعیناتیوں، بحری سیکورٹی، آمدنی کا حصول اور تینوں مسلح افواج کے وار ویسٹیج ریزرو بھی شامل ہوں گے۔
سنگین صورتحال کا اعتراف
وزیراعظم عمران خان نے سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر کی صورتحال پر دوبارہ غور کا خیرمقدم کیا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ’’ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر غور وہاں کی سنگین صورتحال کا اعتراف ہے، پاکستان اس اقدام کا خیر مقدم کرتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر عالمی سطح پر ایک تسلیم شدہ متنازع معاملہ ہے اور یہ مسئلہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل کی تدبیر وقت کا اہم تقاضا ہے۔ پاکستان اہلِ کشمیر کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک انہیں ان کا بنیادی اور ناقابلِ انتقال حقِ خودارادیت مل نہیں جاتا۔‘‘ ۔ ترجمان پاکستان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی نے بریفنگ میں بتایا کہ سلامتی کونسل کا اجلاس پاکستان کی درخواست پر ہوا تھاجس میں ویٹو کا حق رکھنے والے ممالک نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا، مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے اور سلامتی کونسل کا اجلاس اس بات کا عکاس ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک عالمی مسئلہ ہے۔اس سے قبل گذشتہ برس اگست میں تقریباً 50 برس بعد مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا تھا جس میں مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت کشمیر سے متعلق اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف اور ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (ڈی جی آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی شریک ہوئے۔اجلاس میں 5 فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر بھرپور طریقے سے منانے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ شرکاء نے مقبوضہ کشمیر میں 165 دن سے جاری غیر انسانی لاک ڈاؤن کی مذمت بھی کی گئی۔اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم نے کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔مزید برآں وزیر اعظم نے ایک ٹوئیٹ میں عالمی برادری کو خبردار کیا کہ اگر کشمیر میں بھارتی دراندازی کا سلسلہ جاری رہا تو پاکستان کیلئے خاموش رہنا مشکل ہو جائیگا۔ جنگ بندی لکیر کے اس پار نہتے شہریوں پر مقبوضہ بھارتی افواج کے شدت پکڑتے اور معمول بنتے حملوں کے پیش نظر لازم ہے کہ سلامتی کونسل عسکری مبصر مشن کی مقبوضہ کشمیر میں فی الفور واپسی کیلئے بھارت پر زور ڈالے ۔ وزیر اعظم نے خدشے کا اظہار کیا کہ ہمیں بھارت کی جانب سے خود ساختہ/جعلی حملے کا اندیشہ ہے اگر بھارت جنگ بندی لکیر کے اس پار عسکری حملوں میں نہتے شہریوں کے بہیمانہ قتل عام کا سلسلہ دراز کرتا ہے تو پاکستان کیلئے سرحد پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہنا مشکل ہو جائے گا۔