کشمیر کی فلسطین طرز پر تقسیم قوم قبول نہیں کرے گی

Last Updated On 03 February,2020 09:36 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) حکومت اور مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے تیاریاں مسئلہ کشمیر پر انکی سنجیدگی کو ظاہر کر رہی ہیں تاہم یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ کیا کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہار کیلئے صرف ایک دن منانا کافی ہے یا یکجہتی کشمیر کے اصل تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہے کیونکہ جب تک ہم عالمی محاذ پر اس حوالہ سے تحریک پیدا نہیں کر پائیں گے اور دنیا کو مقبوضہ وادی میں بھارت اور اس کی افواج کی جانب سے روا رکھی جانے والی ریاستی دہشت گردی اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں سے آگاہ نہیں کریں گے تب تک نہ بھارت کو دفاعی محاذ پر لایا جا سکتا ہے نہ عالمی برادری مسئلہ کے حل کیلئے استصواب رائے کو یقینی بنا سکتی ہے اور نہ ہی کشمیریوں کی آزادی کی منزل قریب تر ہو سکتی ہے۔

آج جب ہم مقبوضہ وادی کی صورتحال پر نظر دوڑاتے ہیں تو چھ ماہ سے جموں و کشمیر کی مقبوضہ وادی ایک بڑی جیل کی صورتحال سے دوچار ہے۔ گو کہ عالمی سطح پر بھارت کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف تنقید بھی ہو رہی ہے تاہم عالمی تنظیموں اور ذرائع ابلاغ کا طرزعمل جہاں ایک جانب حوصلہ افزا ہے وہاں تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ عالمی برادری زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ رہی نہ عالمی تنظیمیں مظلوم کشمیریوں کی مدد کیلئے پہنچی ہیں اور نہ ہی اقوام متحدہ کی امن فوج بھارتی ظلم و بربریت سے نجات کیلئے حرکت میں آئی ہے۔ پاکستان کشمیریوں کا عالمی سطح پر وکیل اور مسئلہ کا فریق ہے مگر جس موثر اور زوردار انداز میں کشمیر کاز پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ویسے آواز نہیں اٹھائی جا رہی۔ ہماری بنیادی کمزوری یہ ہے کہ ہم ظالم کا سر کچلنے کیلئے لاٹھی اٹھانے کے بجائے لاتوں کے بھوت کو باتوں سے رام کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔

ہمیں ایک مربوط پالیسی کیساتھ آگے بڑھنا ہے ۔ ہمارے پاس بڑا آپشن سفارتکاری کا ہے۔ ہمیں بیرونی محاذ پر کشمیر کاز کو موثر بنانے کیلئے اپنے سفارتکاروں اور سفارتخانوں کو متحرک کرنا ہوگا۔ دوسرا آپشن مذاکرات ہیں۔ ہمیں دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہم متنازعہ ایشوز پر مذاکرات کیلئے تیار ہیں مگر بھارت کی ضد اور ہٹ دھرمی اس میں رکاوٹ ہے ۔ ہمارے پاس تیسرا آپشن اس کے سوا کوئی نہیں کہ بین الاقوامی ثالثی اور دو طرفہ مذاکرات کے جو دروازے بھارت نے بند کر رکھے ہیں اب انہیں لات مار کر کھولنا ہوگا۔ اگر اب بھی ہم عالمی فورمز پر دہائی دینے سے زیادہ کچھ نہیں کر پائے تو اس کا سادہ اور آسان مطلب یہ ہوگا کہ ادھر تم ادھر ہم۔ دوسرے الفاظ میں یہ مقبوضہ کشمیر سے مکمل دستبرداری ہوگی۔

جہاں تک صدر ٹرمپ کی ثا لثی کا سوال ہے تو عالم اسلام فلسطین کے حوالہ سے ان کا حل دیکھ رہے ہیں لہٰذا فلسطین طرز کی تقسیم کا کوئی فیصلہ کشمیر کے حوالہ سے نہ کشمیریوں کو قبول ہوگا اور نہ اہل پاکستان کو، یہ بات حکمرانوں کو بھی یاد رکھنا ہوگی۔