دنیا کشمیر کا نوٹس لیتی تو ناگہانی آفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا

Last Updated On 03 April,2020 08:38 am

لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) ایک جانب دنیا بھر میں کورونا وائرس اور اس کے نتیجہ میں تباہ کاریوں کا بھیانک کھیل جاری ہے تو دوسری جانب بھارت سرکار نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے کشمیر پر اپنے غیر قانونی تسلط کو مضبوط بنانے کیلئے کشمیر کی مسلم اکثریت کو ڈسٹرب کرنے کے اپنے مذموم ایجنڈا پر عمل درآمد شروع کر رکھا ہے جس کے تحت یہاں ڈومیسائل قوانین میں تبدیلی لاتے ہوئے یہاں موجودہ ہندوؤں کو یہاں مستقل بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور ہندوستان بھر سے بھی لوگوں کو کشمیر میں آنے اور یہاں اپنا کاروبار چلانے اور دیگر شعبہ جات میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے مواقع فراہم کر دیئے ہیں۔ لہٰذا دیکھنا یہ ہوگا کہ بھارت کے اس مذموم اور بھیانک عمل پر اقوام متحدہ یا بین الاقوامی برادری حرکت میں آتی ہے، کشمیر میں لاگو کئے جانے والے ڈومیسائل کے غیر قانونی عمل پر کشمیریوں میں کیا رد عمل سامنے آتا ہے ؟۔

مقبوضہ کشمیر کی اب تک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو 8 ماہ کے مسلسل اور سفاک کرفیو اور لاک ڈاؤن کا عمل یہ ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کہ بھارت کشمیریوں کے جذبات و احساسات سے اچھی طرح واقف ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ کشمیری جب بھی پابندی سے آزاد ہوں گے اور انہیں آزاد ماحول میسر آئے گا تو یہ پھر بھارت سے نجات اور بھارتی افواج سے نفرت کا اظہار کریں گے۔ کشمیر میں لاک ڈاؤن کا یہ عمل تقریباً 8 ماہ سے جاری ہے اور انہیں آٹھ ماہ میں بھارتی سرکار اور افواج نے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ ان پر خوراک، ادویات کی فراہمی تک کا کوئی مناسب سلسلہ نہیں جبکہ کشمیری نوجوانوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر ان کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے اور آج عالمی میڈیا میں یہ آواز بھی سننے میں آ رہی ہے کہ آج جب دنیا کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے باعث اپنے گھروں میں بند ہے تو انہیں اس لاک ڈاؤن کا ادراک نہیں تھا جو بھارت کے مظلوم اور نہتے کشمیریوں پر آٹھ ماہ سے لاگو کر رکھا ہے اور بد قسمتی سے اس پر نہ تو عالمی ضمیر حرکت میں آیا نہ عالمی قوتوں نے بھارت کا ہاتھ پکڑا اور مروڑا اور آج دنیا اس وائرس کے ہاتھوں گھروں میں بند، چیخ و پکار کر رہی ہے۔

وزیراعظم عمران خان سمیت کشمیر کمیٹی کے چیئر مین سید فخر امام اور پاکستان کی ترجمان عائشہ فاروقی نے روایتی انداز میں بھارت کے اس غیر قانونی عمل پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری اور اداروں کی توجہ اس جانب مبذول کروائی۔ اس مسئلہ کو بین الاقوامی پلیٹ فارم پر اٹھانے کا اعلان کیا ہے لیکن یہ اعلان اور ایسا کوئی اقدام فی الحال ممکن نظر نہیں آتا اور جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے بھارت کے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اس کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ اور اب ڈومیسائل قوانین میں تبدیلی کا عمل یہ ظاہر کر رہا ہے کہ بھارت لاتوں کا بھوت ہے باتوں سے ماننے والا نہیں وہ اپنے ہندوتوا کے مذموم ایجنڈا پر کاربند بھارت کو ہندوستان بنانے اور یہاں صرف ہندو کا سکہ چلانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اسے نہ ہی کسی قسم کے قانونی اور آئینی ضابطوں کا احساس ہے اور نہ ہی اس پر عالمی قوتوں اور عالمی برادری کے دباؤ اثر رکھتا ہے۔ تو یہ امر اور یہ عمل دنیا کیلئے چیلنج اور مہذب معاشروں کیلئے لمحہ فکریہ سے کم نہیں اور انہیں یہ سوچنا پڑے گا کہ کیا دنیا کو کسی قوانین اور ضابطوں کے مطابق چلنا چاہئے یا یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق طاقت اور قوت کے استعمال کے ذریعہ اپنے مفادات کے منافی کام کرنے والی ہر چیز اصول، ضابطے اور تحریک کو ملیا میٹ کر دیا جائے آج اگر دنیا بھر میں کورونا وائرس جیسی آدم خور وبا اور بلا انتہائی تباہ کاریوں میں سرگرم عمل ہے تو دنیا بھر کے انسانوں کو بھی اس امر کا جائزہ لینا پڑے گا کہ ہم کس حد تک انسانیت پر کاربند ہیں اور کیا انسانوں کو انسانوں کی غلامی میں رکھ کر دنیا میں امن، سکون قائم کیا جا سکتا ہے۔

کشمیر اور فلسطین دنیا میں ایسے بڑے انسانی مسئلے ہیں جن کو حل کئے بغیر نہ یہاں انسانیت قائم ہو سکتی ہے اور نہ کسی طرح کی آئین، قانونی اور ضابطوں کو لاگو کیا جا سکتا ہے۔ کشمیر میں پیدا شدہ صورتحال پر ایک بڑا اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا کشمیری عوام بھارت کے اندھے فاشزم کے خلاف سرنڈر کر دیں گے۔ خاموشی اختیار کر لیں گے ؟ تو یہ کسی بھی طور کسی بھی حالت میں ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ بھارتی سرکار کی جانب سے کشمیر پر کرفیو اور لاک ڈاؤن اس امر کا ثبوت ہے کہ کشمیری بھارت اور بھارتی افواج سے نفرت کرتے ہیں اور کسی بھی قیمت اور کسی بھی حالات میں اپنے حق خود ارادیت پر کمپرومائز کیلئے تیار نہیں اور بھارتی سرکار ان کے جذبات و احساس سے اچھی طرح واقف ہے لہٰذا یہ کہنا کہ بھارت کا تسلط یا یہاں ہندوؤں کو لا بسانے کا عمل آزادی کشمیر کی تحریک پر اثر انداز ہو سکے گا ؟ ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ جس کشمیری قوم نے اپنی آزادی کیلئے قربانیوں کی تاریخ رقم کی ہو اور اس میں اپنا خون دیا ہو وہ کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ ان کی سر زمین پر بھارتی تسلط قائم رہے۔ بھارتی افواج بندوق تانے ان کی آواز پر اثر انداز ہوتی رہے لہٰذا جب تک کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہوتا نہ تو کشمیریوں کو دبایا جا سکتا ہے اور نہ ہی آزادی کشمیر کی تحریک دم توڑ سکتی ہے۔