لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) میڈیا کے محاذ پر حکومت کی جانب سے ہونیوالی تبدیلیوں کے عمل نے سیاسی محاذ پر حکومت کے حوالہ سے بڑے سوالات کھڑے کئے ہیں اور تاثر یہ بنتا نظر آ رہا ہے کہ کیا چہروں کی تبدیلی سے وہ خواب پورا ہو سکے گا جو وزیراعظم عمران خان نے قوم کو دکھایا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ وہ گلے سڑے جمہوری نظام کا خاتمہ کر کے یہاں ایسی سیاسی تبدیلی یقینی بنائیں گے جس کے نتیجہ میں ملک ترقی و خوشحالی کی منزل پر پہنچے گا، عام آدمی کیلئے اپنی زندگی بوجھ نہیں بنے گی۔ ترقی کے مواقع تمام شہریوں کیلئے یکساں اور معاشی مساوات کو یقینی بنایا جائے گا۔
ویسے تو وفاقی وزیر کے طور پر سینیٹر شبلی فراز اور معاون خصوصی کیلئے عاصم سلیم باجوہ کے انتخاب کو اچھی اور مثبت پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے مگر حکومت کے ناقد طبقے ان تبدیلیوں میں حکومت کا اختیار مزید کم ہوتا بھی دیکھ رہے ہیں لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ ہنگامی حالات میں اطلاعات کے میدان میں یہ بڑی تبدیلیاں کیوں کرنا پڑیں۔ جس ایجنڈا اور بیانیہ کی علمبردار ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان تھیں کیا وہ حکومتی بیانیہ نہیں تھا یا اس میں تبدیلی کے امکانات ہیں۔ چہروں کی تبدیلی کا عمل کیا اصل تبدیلی سے کہیں دور تو نہیں لے کر جا رہا اور وزارتوں میں تبدیلیاں کیا حکومتی کارکردگی میں بھی اضافہ کا باعث بنیں گی۔
اب تک کی حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو بحیثیت مجموعی اس کے بیس ماہ پر اطمینان کا اظہار نہیں کیا جاسکتا اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کو اس حکومت سے بہت سی توقعات تھیں خصوصاً عام آدمی کی حالت زار میں بہتری، گورننس کا عمل، لوٹ مار کا خاتمہ اور عام آدمی کیلئے ریلیف اور مہنگائی، بے روزگاری، غربت کا خاتمہ ممکن نہ بن سکا جس کی وجہ سے عوامی سطح پر مایوسی اور ملکی سطح پر بے چینی اور بے یقینی نظر آئی۔ یہ سوال بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ ان حالات میں اطلاعات کے میدان میں بڑی تبدیلیاں کیوں کرنا پڑی ہیں ؟ اس سے پہلے ایک منظر نامہ ہے جسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔
وزیراعظم عمران خان اپنی مقبولیت اور میڈیا کے ساتھ شراکت داری کی بنیاد پر 2018 کے انتخابات میں برسراقتدار آئے مگر اس کے بعد وزیراعظم اور میڈیا کی راہیں بوجوہ جدا ہو گئیں۔ اس میں اس وقت کے وزیر اطلاعات فواد چودھری کا بھی ایک کردار تھا۔ نئی حکومت کے پاس ایک مفروضہ تھا کہ گزشتہ حکومت نے سرکاری وسائل کو پانی کی طرح میڈیا کے اشتہارات پر بہایا ہے اور اس نے اشتہارات اور ان کے نرخ انتہائی کم کر دیئے۔ سارے معاملے میں عمران حکومت اور میڈیا میں بد اعتمادی کا بحران اٹھ کھڑا ہوا۔ اب وزیراعظم اپنی پسند کے اینکروں کو بلاتے ہیں اور ملتے ہیں مگر اجتماعی طور پر میڈیا کیلئے مافیا کا لفظ اور طاقتور حریف کے طور پر تصور کرتے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان بھی اس راہ کی مسافر نکلیں، وہ بھی موقع پاتے ہی میڈیا پر چڑھ دوڑتیں۔
عمران حکومت کا المیہ یہ ہے کہ اپنی گورننس بہتر بنائے بغیر نتائج میڈیا کی سکرین پر چاہتی ہے ملک میں عملاً سیاسی انارکی کے ماحول میں بظاہر ایسا ناممکن تھا اور رہے گا اس لیے میڈیا اور وزیراعظم تقریباً پوائنٹ آف نو ریٹرن پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور اس سے حکومت اور میڈیا دونوں کے باہمی تعلقات بنتے نظر نہیں آتے۔ بہرحال میڈیا اور وزیراعظم کے آپس میں بڑھتے فاصلے اس تبدیلی کی اصل وجہ نہیں ہیں ایک محرک تو ضرور ہو سکتے ہیں اس تبدیلی کے پیچھے سول ملٹری تعلقات کا کمال ضرور ہو سکتا ہے کیونکہ جس طرح شبلی فراز جیسے نفیس طبیعت کے سینیٹر کو وزیر بنایا گیا ہے اور ان کے ساتھ معاون خصوصی اطلاعات عاصم سلیم باجوہ زبردست پروفیشنل کیریئر رکھتے ہیں۔ ان کا میڈیا کو ڈیل کرنے کا وسیع تجربہ ہے جسے وہ ضرور کام میں لائیں گے۔
ایک بات ضرور یاد رہے کہ فوجی افسر ہمیشہ فوجی افسر رہتا ہے بہرحال اب وہ ایک ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں تو لازمی نہیں کہ اس بار بھی وہ وہی نتائج دیں جو وہ ماضی میں دیتے رہے ہیں۔ تبدیلی کے بعد یہ ممکن نہیں کہ حکومت اپوزیشن کے حوالے سے اپنی لائن اور طرز عمل تبدیل کرے گی۔ حکومت پر جوں جوں دباؤ بڑھتا جائے گا وہ اپنے گھوڑے اس طرح بدلتی رہے گی تاکہ ان تبدیلیوں کی گردش میں اصلی تبدیلی کو لوگ بھول جائیں اور اقتدار کی اس میوزیکل چیئر گیم میں ایسے کھو جائیں کہ حکمران تبدیلی لائے بغیر اقتدار کی راہوں سے بیدخل بھی ہو جائیں تو عوام کو پتا نہ چلے۔ حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی کے مسائل بڑھے ہیں بے روزگاری کے طوفان کے آگے بند نہیں باندھا جا سکا۔ مہنگائی دندناتی نظر آ رہی ہے اور غربت میں اضافہ ہوا ہے لہٰذا حکومت کو اپنی کارکردگی میں بہتری کا سوچنا چاہئے۔