لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) حکومت کی جانب سے تاجروں، کاروباری انجمنوں کے مطالبہ اور دہاڑی داروں پر آنے والے معاشی بوجھ کی بنا پر لاک ڈاؤن میں نرمی کا عمل خود حکومت کے گلے پڑتا نظر آ رہا ہے کیونکہ لاک ڈاؤن کی نرمی کی آڑ میں وائرس سے بچنے کیلئے جاری مروجہ طریقہ کار کی خلاف ورزیاں اپنی انتہا کو چھوتی نظر آ رہی ہیں اور امکانات یہی ہیں کہ ہر آنے والے دن میں متاثرین اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی اموات میں اس قدر اضافہ ہو سکتاہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا۔ لہٰذا یہی وجہ ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی اختیار کرنے کا اعلان کرنے والی حکومت کے اپنے ہاتھ پاؤں پھولے نظر آ رہے ہیں اور حکومتی حلقوں میں ایک مرتبہ پھر نرمی کے عمل پر نظرثانی کرتے ہوئے ان مارکیٹس کو بند کرنے کی تجویز ہے، جہاں نہ وائرس سے بچنے کی مروجہ طریقہ کار پر عملدرآمد ہو رہا ہے اور نہ ہی وہ کاروباری اور تاجروں کی انجمنیں ذمہ داری لینے کو تیار ہیں جو مارکیٹیں کھلوانے کیلئے بڑی بے چین نظر آتی تھیں۔
لہٰذا اب سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ متاثرین اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی اموات کے آگے بند کیسے باندھا جا سکتا ہے۔ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزیوں کا حل حکومت کے پاس کیا ہے اور کیا آنے والے دنوں میں حالات حکومت کی کنٹرول میں رہیں گے۔ ایک تاثر یہ قائم ہو رہا ہے کہ حکومت نے اپنے اوپر آنے والے دباؤ کے باعث جس کورونا کے جن کو لاک ڈاؤن کے ذریعہ بوتل میں بند کر رکھا تھا اب نرمی کے بعد یہ دندناتا ہوا نظر آ رہا ہے اور کیا بوتل سے آزاد ہونے والے جن کو دوبارہ بند کیا جا سکتا ہے۔ زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو تمام تر اقدامات اور احتیاطی تدابیر کے باوجود مرض بڑھتا جا رہا ہے۔ حالت یہ ہے کہ ایک دن کے اندر ملک بھر میں اڑھائی ہزار کے قریب متاثرین سامنے آئے ہیں۔ مرض کی ایسی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ایک جانب تو عوام میں خوف بڑھ رہا ہے اور دوسری جانب یہی عوام خرید و فروخت کے نام پر بدترین بے احتیاطی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور تیسری جانب انتظامی مشینری پر اس آزمائش کے وقت میں بھی دکانداری سے مال بنانے اور کام چلانے کے الزامات لگ رہے ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں، جنہوں نے مل کر اس سارے بحران کو کسی قابل عمل فارمولا کی شکل میں حل کرنا تھا وہ عملاً ناکام نظر آ رہی ہیں۔ کوئی بھی حکومت ملک میں ابھی تک عوام میں کورونا وائرس کے خلاف پیغام اور آگاہی بیدار نہیں کر سکی۔ اس لئے پہلے دن سے ملک کے کسی بھی حصے میں عوام نے لاک ڈاؤن کو دل سے قبول ہی نہیں کیا اور اس سارے عمل میں تماشہ اس وقت بنا جب وفاقی اور صوبائی حکومتیں خصوصاً سندھ حکومت باہم دست و گریباں ہو گئے۔ جب قومی سطح کی سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما اس طرح کے حساس مسئلہ پر بھی سیاست چمکانیں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے نظر آئیں تو پھر عوام سے اپنے رویہ کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ عوام اجتماعی سطح پر ایک ریوڑ کی مانند ہوتے ہیں جو اپنے ملک کی سیاسی اشرافیہ اور قیادت کے پیچھے چلتے ہیں۔ اس سارے عمل کا نتیجہ لاک ڈاؤن کی نرمی یا اسے ختم کرنے کے بعد اب بازاروں میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
اب عوام کا جم غفیر دکانوں اور خصوصاً اشیائے خورونوش اور عید کی خریداری پر ٹوٹ پڑا ہے حالانکہ یہی وہ لوگ ہیں جو آئے روز ہمارے صحت کے سسٹم سے جن کا واسطہ رہتا ہے اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ نہ ہماری حکومت کے پاس اتنے وسائل ہیں اورنہ ہسپتالوں میں اتنی گنجائش ہے کہ اتنی بڑی آبادی کی ضروریات کو پورا کر سکے مگر وہ پر بھی اس درجہ کی بے حسی اور بے احتیاطی پر اتر آئے ہیں کہ جس سے کورونا وائرس کے خلاف اب تک کے اقدامات کی ناکامی کا خدشہ حقیقت بنتا نظر آ رہا ہے۔ لاک ڈاؤن کے ختم ہونے کے ایک دو روز کے اندر ہی مرکز اور پنجاب کے وزرا چیخ اٹھے ہیں کہ بازاروں کے اندر جو مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں اس کے بعد کورونا کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات ملیا میٹ نظر آ رہے ہیں۔ حکومت جس نے اس تمام عمل کو روکنا تھا اور کوئی سنجیدہ فارمولا ڈھونڈنا تھا وہ تاجروں کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے اور تاجر حکومت پر الزامات لگا رہے ہیں۔ اس سارے عمل میں کہیں بھی کوئی مربوط حکمت عملی نظر نہیں آ رہی۔
اب یہ واضح ہو رہا ہے کہ حکومت نے زمینی حقائق کو مدنظر رکھے بغیر تاجروں اور سادہ لوح عوام کے دباؤ پر یکطرفہ لچک دے ڈالی اور حکومت اور تاجروں میں سنجیدہ مشاوت ہونی ہوتی تو مروجہ طریقہ کار پر عمل ہوتا نظر آتا۔ اس سے پہلے بھی حکومت اس سے ملتے جلتے مرحلہ سے گزری تھی۔ اس میں حکومت نے دہرائی جانے والی غلطیاں دوبارہ کر ڈالیں۔ حکومت نے علما کے ساتھ بھی انتہائی دباؤ میں آ کر مساجد میں عبادات کا سلسلہ شرائط کے ساتھ اجازت دے ڈالی مگر رمضان کے شروع ہوتے ہی دیکھا کہ بہت سی مساجد میں طے شدہ طریقہ کار پر عملدرآمد ہی نہیں ہوا اب ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد وائرس کی گرماگرمی کو دیکھ کر پھر سے پابندیوں کے عمل کی بات ہو رہی ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے حوالہ سے یہ خبر آئی ہے کہ پہلے مرحلہ پر لاہور کے اندر ان مارکیٹوں کو بند کیا جائے گا جہاں احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں ہو رہا اور ایسی ہی خبریں حکومتی ذمہ داران کے حوالہ سے بھی ریکارڈ پر ہیں کہ اگر خلاف ورزیوں کا سلسلہ بند نہ ہوا تو نرمی کا عمل ختم ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب پارلیمنٹ کا محاذ دیکھیں تو وہاں بھی وائرس سے نمٹنے کیلئے کوئی مثبت پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔ سیاستدان جو کورونا وائرس پر پریس کانفرنس کرتے دکھائی دیتے تھے اب وہی الزامات عوام کے خرچ پر پارلیمنٹ کے اجلاس میں ایک دوسرے پر لگا رہے ہیں، عوام سوچ رہے ہیں کہ اگر یہی گند پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اچھالنا تھا تو پھر اس اجلاس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ جمہوریت پسند معاشروں میں کوئی بھی بحران ہو تو ملک کی پارلیمنٹ موثر اور قابل عمل حل نکال کر لاتی ہے اور یہاں المیہ یہ ہے کہ اس پارلیمنٹ کے دو بڑے ذمہ دار قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف اس میں شامل تک نہ ہوئے جہاں تک پاکستان میں قانون کی عملداری اور حکمرانی کا تعلق ہے تو وہ ایسی ہے جس سے پارلیمنٹ کے نتیجہ میں ناممکن ہی رہے گا۔ ایک ایسے وقت میں جب قوم کو زندگی موت کا مرحلہ درپیش ہے تو پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ سنجیدگی اختیار کرنے کو تیار نہیں اور کورونا کے حوالہ سے قومی اتفاق رائے کا امکان بھی ممکن نظر نہیں آ رہا۔
اس سارے عمل میں ایک جانب عوام مکمل طور پر کورونا کے رحم و کرم پر ہیں اور دوسری جانب پارلیمنٹ اور جمہوریت سیاستدانوں کی لڑائی میں اپنا وقار اور اہمیت کھو رہی ہیں اور محسوس ہو رہا ہے کہ اتنے بڑے بحران میں بھی کوئی نوشتہ دیوار پڑھنے کو تیار نظر نہیں آ رہا اور اس صورتحال میں ملک اور قوم عیدالفطر کیسے پہنچ پائیں گے یہ سوچ کر بھی خوف آ رہا ہے کہ خوشی کے اس موقع پر کورونا کی بربادیوں اور تباہیوں کا کیا عالم ہو سکتا ہے جس کا نہ عوام کو احساس ہے اور نہ ہی حکومت وقت کو خیال ہے۔