لاہور: (فہد شہباز خان) شوگر ملز مالکان کی غیر قانونی طور پر منظور شدہ استعداد سے زیادہ کرشنگ کرنے کے حقائق کا پتا لگایا ہے، فروخت میں اربوں روپے کی سٹے بازی کا بھی انکشاف، چینی سکینڈل میں 90 فیصد جعلی رسیدیں بنائے جانے کے شواہد ملے ہیں۔ گنے کے بڑے پیمانے پر غیر رجسٹرڈ ڈیلرز کا انکشاف ہوا ہے۔ چینی کمیشن نے شوگر ملز کی طرف سے وسیع پیمانے پر سٹاک کی ذخیرہ اندوزی کا بھی سراغ لگا لیا ہے۔ چینی کمیشن کے چینی ایکسپورٹ نہ کرنے کے بارے میں شواہد نہیں مل سکے۔ بعض شوگر ملز مالکان کی طرف سے چینی کی پیداوار سے 8 ماہ تک لوکل مارکیٹ میں چینی کا ایک بھی دانہ فروخت نہ کرنے کا انکشاف کیونکہ وہ پر امید تھے کہ حکومت کی طرف سے ایکسپورٹ کی اجازت مل جائے گی اور وہ سبسڈی بھی لیں گے۔
2017-18 کے دوران ایکسپورٹ کرنیوالی ملوں نے سپورٹ پرائس سے کم قیمت پر گنا خریدا، چینی کی بے نامی فروخت 80 فیصد تک ڈرائیوروں کے نام پر ہوئی۔ چینی کمیشن کی تحقیقات کے دوران چینی کی فروخت میں اربوں روپے کی سٹے بازی کا انکشاف ہوا ہے۔ کمیشن کے ذرائع نے دنیا نیوز کو بتایا کہ ملک کے بڑے شہروں میں سٹے بازی کے مراکز قائم ہیں جن میں بابر سنٹر لاہور، جودھیا بازار کراچی، غلہ منڈی ملتان، گول کریانہ بازار فیصل آباد شامل ہیں۔ کمیشن ذرائع کے مطابق سٹے بازی دو طرح سے کی جاتی ہے جن میں حاضر سٹاک کا سودا اور فارورڈ کنٹریکٹ شامل ہیں۔ حاضر سٹاک سٹے میں چینی کی ہزاروں بوریاں خرید لی جاتی ہیں مگر وہ ملز کے گودام میں پڑی رہتی ہیں۔
مثال دیتے ہوئے ذرائع نے بتایا کہ اگر ایک بوری 7600 روپے کی ہے اور اس پر ایک ماہ بعد مارکیٹ میں 7800 قیمت کے ہونے کا دعویٰ کر دیا جاتا ہے جس نے 7800 روپے کے حساب سے بوری خریدنی ہو اسے پوری رقم ادا نہیں کرنی پڑتی بلکہ 200 روپے فی بوری بیانے کی رقم کے طور پر ادا کرنے ہوتے ہیں لیکن اگر قیمت 7800 تک نہ جاسکے تو مذکورہ پارٹی کی تمام رقم جو فی بوری بیانے کے طور پر ادا کی جاتی ہے وہ ضبط کر لی جاتی ہے اور اگر یہی سٹہ لاکھوں بوریوں پر ہو تو رقم اربوں روپے تک جاپہنچتی ہے۔ اور یاد رہے کہ جو مال ملز نے پارٹیوں کو بیچا تھا وہ پلج بھی ہوا ہوتا ہے۔ دوسری جانب فارورڈ کنٹریکٹ میں ملز ایڈوانس میں ہی مال بیچ دیتی ہیں اور مارکیٹ میں ایک ماہ بعد فرضی قیمت اڑا دیتی ہے جبکہ ہارنے والے کی بیانے کی رقوم ملز ضبط کرلیتی ہے۔
چینی سٹے میں انڈسٹری، بروکر اور بے نامی انویسٹر اہم کھلاڑی ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ چینی کی قیمت بڑھانے میں سٹے کے غیر قانونی رواج کا اہم کردار ہے۔ ذرائع کے مطابق ملکی سطح پر چینی کی فروخت کیلئے دو طرح کی بلٹی بنائی جاتی ہے۔ بوگس بلٹی میں غلط ریکارڈ درج کر کے ایف بی آر کو بھجوا دیا جاتا ہے اور خفیہ بلٹی کے ذریعے چینی کا کاروبار ہوتا ہے جس سے اصل خرید و فروخت کو چھپایا جاتا ہے۔ بے نامی ٹرک ڈرائیوروں میں 60 لاکھ کی چینی کا خریدار ایک ڈرائیور ہے جس نے تحقیقات کے دوران کمیشن کو بتایا کہ وہ ایک کلو سے زائد چینی کا خریدار نہیں، چینی کمیشن نے تحقیقات کے دوران غیر قانونی طور پر پہلے سے منظور شدہ ملز کی استعداد سے زیادہ کرشنگ کا سراغ لگایا ہے۔ تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ ملز نے منظور شدہ ٹن کرشنگ پر ڈے (TCD) کے معاہدے کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔
2017-18 میں ایکسپورٹ کیلئے وسیع پیمانے پر بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں جن میں گنا سپورٹ پرائس سے کم خریدنا، کین کمشنرز کی طرف سے مناسب جانچ پڑتال کے بغیر ایکسپورٹ کیلئے این او سی دینا اور ملز کا واجبات کی مکمل ادائیگی کے بغیر ایکسپورٹ کرنا شامل ہیں۔ اپنی تحقیقات میں لوکل مارکیٹ میں 80 فیصد سے زائد چینی کی بے نامی فروخت انکشاف ہوا ہے۔ اسی طرح کمیشن نے تحقیقات میں گنے کی ناقص کوالٹی کے نام پر شوگر ملوں کے وزن کرتے ہوئے 20 سے 40 فیصد تک کٹوتی کرنے کا سراغ بھی لگایا ہے۔