لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان نے ملک بھر میں پٹرول بحران کے ذمہ داروں کے گرد قانون کا شکنجہ کستے ہوئے ان کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے ہیں اور کہا ہے کہ ان کمپنیوں کے پاس ذخیرہ شدہ پٹرول فوری طور پر مارکیٹ میں لایا جائے۔ وزیراعظم عمران خان کو دی جانے والی رپورٹ میں ذمہ داران کا تعین کیا گیا اور اوگرا نے اس کی ذمہ داری پٹرولیم ڈویژن پر عائد کر دی جس پر وزیراعظم عمران خان نے فوری طور پر ان کمپنیوں کے لائسنس معطل کرنے کے احکامات جاری کیے اور کہا کہ تمام کمپنیوں کو اپنے پاس 21 روز کا ذخیرہ کرنے کا پابند بنایا جائے ۔ لہٰذا وزیراعظم عمران خان کے احکامات اور اقدامات کے بعد کیا پٹرولیم کا بحران ختم ہو جائے گا۔
آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جو پٹرولیم کمپنیوں کو حکومتی اعلانات پر عمل درآمد سے روکے ہوئے تھیں۔ وزیراعظم عمران خان کے اقدامات کے بعد کیا پٹرولیم کی بحرانی کیفیت ختم ہو جائے گی؟ اور مستقبل میں ایسی کوئی کیفیت پیدا نہیں ہوگی؟ مذکروہ بحران اس وقت پیدا ہوا جب عالمی منڈی میں پٹرولیم کا بڑا بحران آنے کے بعد حکومت نے پٹرولیم کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کر ڈالی اور یہ وہ اعلان تھا جو پٹرولیم کمپنیوں کو ہضم نہ ہوا اور انہوں نے پٹرولیم کی فراہمی کا عمل محدود کتے ہوئے بڑا بحران پیدا کر دیا۔ پاکستان میں گزشتہ ماہ کے اختتام تک پٹرول با آسانی دستیاب تھا تاہم جون شروع ہونے کے بعد بحران نے سر اٹھانا شروع کیا۔ پٹرولیم کی قلت کی اصل وجہ جاننے کیلئے ضروری ہے کہ اس سسٹم کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے۔ موجودہ بحران کی ذمہ دار دراصل پٹرولیم کمپنیاں ہیں، جبکہ پٹرولیم کمپنیاں ذمہ دار قیمتوں میں کمی کے بعد پٹرولیم کی کھپت کو قرار دے رہی ہیں۔
دوسری جانب پٹرول پمپس مالکان بھی بحران کا ذمہ دار پٹرولیم کمپنیوں کو قرار دیتے آ رہے ہیں۔ ملک میں لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں ٹرانسپورٹ کی بندش سے پٹرولیم کی بچت میں اضافہ ہوا، بعد ازاں پاکستان نے مارچ سے قیمتوں میں کمی شروع کی، دو ہفتوں میں قیمتوں میں ہونے والی نمایاں کمی سے کمپنیاں پریشان ہو گئیں اور منافع میں کمی نے انہیں بحران پیدا کرنے پر مجبور کر دیا۔ کیا حکومت کو اندازہ نہ تھا کہ قیمتوں میں کمی سے بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ کمپنیوں کے پاس موجود ضروری سٹاک، تیل بردار جہازوں کی ٹریکنگ کرنی چاہئے تھی۔ پٹرول بحران حکومتی کی سستی کی وجہ سے اسکے اپنے گلے پڑتا نظر آرہا ہے۔ منافع ہونے کے باعث پٹرولیم کمپنیوں نے ایک خاص قیمت پر تیل برآمد کر کے اپنے پاس ذخیرہ کر رکھا تھا جبکہ دوسری جانب حکومت پر دباؤ بڑھتا گیا۔ تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں حکومت نے کمپنیوں اور انکے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا ہے مگر دیکھنا یہ پڑے گا کہ کارروائی کیساتھ ساتھ کیا پٹرولیم کی فراہمی ممکن بن پائے گی یہ بنیادی سوال ہے جو فی الحال ممکن بنتا نظر نہیں آ رہا۔
وزارت کو ایسی حکمت عملی ترتیب دینا پڑے گی جس کی وجہ سے مستقبل میں پٹرولیم کا بحران پیدا نہ ہو۔ جس اقدام کی وجہ سے عوام کیلئے ریلیف اور اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں کمی ممکن بننا تھی وہ ناقص حکمت عملی اور پٹرولیم کمپنیوں کے طرز عمل کے باعث حکومت کے فائدے میں جانے کی بجائے نقصان میں رہی۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے ہونے والے اقدامات کے بعد بحران ختم ہو پاتا ہے ؟ کیونکہ پٹرولیم کمپنیاں اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی بحران کے خاتمہ میں حکومت سے تعاون کرنا چاہتی ہیں۔