لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور ریاستی دہشت گردی کے بے بہا استعمال کے باوجود بھارت اپنے تسلط کے قیام میں ناکام رہا تو اب عملاً اس نے کشمیر کی سر زمین کو ہندوؤں کیلئے کھولنے اور انہیں یہاں کا شہری بنانے کے غیر قانونی عمل کا آغاز کر دیا۔ اب 25 ہزار اپنے شہریوں کو یہاں لا بسانے کے عمل کا آغاز کرتے ہوئے انہیں ڈومیسائل مہیا کئے جا رہے ہیں اور انہیں یہاں زمین و مکان خریدنے اور سرکاری دفاتر میں ان کی شرح بڑھانے کا عمل شروع کیا جا چکا ہے ، لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ بھارت کا اپنے شہریوں کو یہاں لا بسانے اور کھپانے کا عمل اپنے تسلط کے قیام کیلئے کافی ہوگا ؟ کشمیری اس غیر قانونی عمل کو ہضم کر پائیں گے ؟ اور کشمیر میں لا کر بسائے جانے والے ہندوؤں کا عمل کیا ہوگا ؟ اور یہ کہ کشمیر کی جغرافیائی تقسیم کا خواب حقیقت بن پائے گا ؟۔
آج اگر کشمیر کے سیاسی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو ایک طرف دنیا بھر میں کورونا وائرس کی تباہ کاریوں نے ہر انسان کو ہلا کر رکھ دیا ہے تو دوسری جانب بھارت کی سفاک حکومت اور فوج جموں و کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی لانے کو تیار نہیں۔ یہی نہیں بلکہ جموں و کشمیر کی سیاسی و سماجی اور قومی صورتحال کو تبدیل کرنے کے درپے بڑے جارحانہ اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ 5 اگست 2019 کو اس نسل پرست فسطائی بھارتی حکومت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جموں و کشمیر کو اپنے وفاق میں ضم کرنے کا غیر اخلاقی، غیر انسانی اور غیر جمہوری فیصلہ کیا۔ اس پر عملدرآمد کیلئے وہ دن رات ایک کئے ہوئے ہے اس کیلئے طاقت کا استعمال بھی ہو رہا ہے اور غیر قانونی اقدامات کے ذریعہ بھی اپنے تسلط کے قیام کیلئے ممکنہ اقدامات بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ بھارت کا ہاتھ پکڑنے اور اس کے مذموم ایجنڈا پر اثرانداز ہونے کیلئے سفارتی محاذ گرم نظر آنا چاہئے۔
دنیا کو پتہ چلنا چاہئے کہ کشمیر برصغیر کا سلگتا مسئلہ ہے اور اس مسئلہ کے حل کے بغیر یہاں امن و استحکام ممکن نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ہم 5 اگست کو پھر سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے اقدام کو چیلنج کرتے ہوئے ایک نئی تحریک کا آغاز کریں گے لیکن یہ عمل وقتی نہیں ہونا چاہئے۔ اس کیلئے ایک مربوط حکمت عملی پر گامزن ہونا چاہئے اور اس امر کا جائزہ بھی لینا چاہئے کہ گزشتہ سال 5 اگست کے بھارتی اقدام کے خلاف ہماری حکمت عملی اور اقدامات پر کس حد تک عمل ہوا اس کے کیا اثرات پیدا ہوئے اور ان کے نتیجہ میں بھارت دفاعی محاذ پر نہیں آیا۔ اگر ایسا نہیں ہو سکا تو ہمیں نئے سرے سے کشمیر پر نیا لائحہ عمل تیار کر کے آگے بڑھنا چاہئے جو نتیجہ خیز ہو۔