لاہور: (دنیا نیوز) سابق وزیراعظم نواز شریف کی لندن روانگی پر تنقید کے بعد صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری کوئی ڈاکٹر نہیں، انہیں بہت سی چیزوں کا علم نہیں۔
یاد رہے کہ ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے ڈاکٹر یاسمین راشد کے بیان پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد گائناکالوجسٹ ہیں، میرا نہیں خیال نواز شریف کو کوئی ایسا پرابلم تھا جس کا حل گائنا کالوجسٹ کے پاس ہو لہٰذا یاسمین راشد سے بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔
دنیا نیوز کے پروگرام ’آن دی فرنٹ‘ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر صحت کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ کی100بار انکوائری کرالیں، وفاقی وزیر فواد چودھری ڈاکٹر نہیں، ان کیلئے رپورٹ کو سمجھنا مشکل ہو گا۔ انہیں پتا ہونا چاہیے میں بطورِ وزیر صحت رپورٹس دیکھ رہی تھی۔
پروگرام کے دوران یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ نوازشریف کی میڈیکل رپورٹس پرمیراموقف نہیں بدلا۔ ڈاکٹرایازمحمود کے پاس ہرٹیسٹ کےنمونے محفوظ ہیں۔ پروفیسرزنےاپنی نگرانی میں سارا کام کیا۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم دل کےپرانےمریض ہیں۔ ان کی بیماری پر میڈیکل بورڈ بنا تھا۔ لیگی قائد 14 روز تک ہسپتال میں رہے۔ سینئرڈاکٹرزکی نگرانی میں نوازشریف کےخون کے نمونے لیے گئے۔ جب وہ ہسپتال آئے تو ان کے پلیٹ لیٹس کم تھے۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف واپس نہ آئے تو شہباز کو ڈی کوالیفائی کا سامنا کرنا پڑیگا: فواد چودھری
یاد رہے کہ میاں نوازشریف کی طبیعت21 اکتوبر 2019 کو خراب ہوئی اور ان کے پلیٹیلیٹس میں اچانک غیر معمولی کمی واقع ہوئی، ہسپتال منتقلی سے قبل سابق وزیراعظم کے خون کے نمونوں میں پلیٹیلیٹس کی تعداد 16 ہزاررہ گئی تھی جو ہسپتال منتقلی تک 12 ہزار اور پھر خطرناک حد تک گرکر 2 ہزار تک رہ گئی تھی۔
نوازشریف کو پلیٹیلیٹس انتہائی کم ہونے کی وجہ سے کئی میگا یونٹس پلیٹیلیٹس لگائے گئے لیکن اس کے باوجود اُن کے پلیٹیلیٹس میں اضافہ اور کمی کا سلسلہ جاری ہے۔
ان کی صحت کے معاملے پر ایک سرکاری بورڈ بنایا گیا تھا جس کے سربراہ سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (سمز) کے پرنسپل پروفیسر محمود ایاز تھے جب کہ اس بورڈ میں نوازشریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان بھی شامل تھے۔
سابق وزیراعظم نوازشریف 16 روز تک لاہور کے سروسز ہسپتال میں زیر علاج رہے جس کے بعد انہیں 6 نومبر کو سروسز سے ڈسچارج کرکے شریف میڈیکل سٹی منتقل کیا گیا تاہم شریف میڈیکل سٹی جانے کی بجائے ان کی رہائش گاہ جاتی امرا میں ہی ایک آئی سی یو تیار کیا گیا جس کی وجہ سے وہ اپنی رہائش گاہ منتقل ہوگئے۔
سابق وزیراعظم کی بیماری تشخیص ہوگئی ہے اور ان کو لاحق بیماری کا نام اکیوٹ آئی ٹی پی ہے، دوران علاج انہیں دل کا معمولی دورہ بھی پڑا جبکہ نواز شریف کو ہائی بلڈ پریشر، شوگراور گردوں کا مرض بھی لاحق ہے۔
نواز شریف کو لاہور ہائیکورٹ نے چوہدری شوگر ملز کیس میں طبی بنیادوں پر ضمانت دی ہے اور ساتھ ہی ایک ایک کروڑ کے 2 مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ نے 26 اکتوبر کو ہنگامی بنیادوں پر العزیزیہ ریفرنس کی سزا معطلی اور ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی اور انہیں طبی و انسانی ہمدردی کی بنیاد پر 29 اکتوبر تک عبوری ضمانت دی تھی جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم کی سزا 8 ہفتوں تک معطل کردی۔
اس مقدمے میں سابق وزیراعظم کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 7 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ 8 نومبر کو شہباز شریف نے وزارت داخلہ کو نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دی اور 12 نومبر کو وفاقی کابینہ نے نوازشریف کو باہر جانے کی مشروط اجازت دی۔
ن لیگ نے انڈيمنٹی بانڈ کی شرط لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردی اور 16 نومبر کو لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی جس کے بعد 19 نومبر کو نواز شریف علاج کے لیے لندن روانہ ہوگئے۔