اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نواز شریف نے فوج اور آئی ایس آئی پر تنقید کی۔ اس سے بڑی غداری کیا ہوگی کہ آپ فوج کو بغاوت کا کہہ رہے ہیں۔ یہ نظریے کی نہیں بلکہ چوری بچانے کی جنگ ہے۔
نجی ٹیلی وژن کو دیئے گئے انٹرویو میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ چوری کے فلیٹوں میں بیٹھ کر اداروں پر حملے کرتے ہیں۔ چاہے کرسی چلی جائے، میں انھیں این آر او نہیں دوں گا۔ سارے جیب کترے اکٹھے ہو کر شور مچا رہے ہیں لیکن میں نے ان کو نہیں چھوڑنا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ فیٹف کی قانون سازی کی آڑ میں حکومت کو بلیک میل کر رہے تھے۔ ہمیں کہا جا رہا تھا کہ نیب کو ختم کر دو۔ اب یہ اداروں کو زور لگا کر کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بچا لو۔ وزیراعظ٘م نے ایک مرتبہ پھر کرپشن کیخلاف اپنا دوٹوک موقف دہراتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن جتنے مرضی جلسے کر لے، جب تک پیسہ واپس نہیں کریں گے، میں انھیں نہیں چھوڑوں گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں پہلی دفعہ وہ لوگ جیل گئے جو کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ جیب کترے اکٹھے ہو کر این آر او مانگ رہے ہیں۔ ان کے خلاف مزید شواہد مل رہے ہیں، ان سب کو خطرہ ہے کہ جیلوں میں نہ چلے جائیں۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں عوام کو پتا چلے گا کہ ان کے خلاف کیا کیا شواہد ملے ہیں۔ جو ان لوگوں کو فنانس کر رہے تھے، ہم ان تک پہنچ رہے ہیں۔ سرکاری زمینوں پر انہوں نے عمارتیں بنائیں۔
شریف فیملی بارے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف جھوٹ بول کر بیماری کا کہہ کر باہر گئے۔ شہباز شریف کا داماد باہر بھاگا ہوا ہے۔ نواز شریف کے بیٹوں کی اربوں کی پراپرٹی ہے۔ برطانوی میڈیا نے ان کی کرپشن پرٖ ڈاکیومنٹری بنائی۔ نواز شریف نے زرداری کے خلاف کیسز بنائے اور انھیں جیل میں ڈالا۔ مشرف نے آ کر دونوں کو این آر او دے دیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پچھلے تیس سالوں میں سسٹم ایسا ہے لوگ اقتدار میں آ کر پیسہ بناتے ہیں۔ جب احتساب ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ہمارے خلاف انتقامی کارروائی ہو رہی ہے۔ جن اداروں نے ان کو پکڑنا تھا ان کو کمزور کر دیا گیا۔ یہ اپنے وکلا کو کروڑوں روپے فیس دیتے ہیں۔ اتنا زیادہ پیسہ کسی اور شعبے میں نہیں بنایا جا سکتا۔
اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں اپنی ہمت سے زیادہ کام کر رہا ہوں، ابھی تک ایک دن کی چھٹی نہیں کی۔ وزیراعظم بننے کے بعد مجھے خود کو بہت تبدیل کرنا پڑا، آفس سے سیدھا گھر جاتا ہوں۔ سوا دو سال میں اپنی کارکردگی سے مطمئن ہوں۔