اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے سیکولر ہندوستان کا چہرہ مسخ کر دیا ہے۔ کسانوں کا احتجاج بھارت کا اندرونی معاملہ، ہمیں اس میں نہیں کودنا چاہیے بلکہ خاموشی سے صورتحال پر نظر رکھنی چاہیے۔
وزیر خارجہ کے فیس بک پیج پر جاری بیان میں لکھا ہے کہ مودی سرکار نے بغیر سوچے سمجھے ملک بھر میں مکمل لاک ڈاؤن کیے رکھا اس سے کاروبار تباہ ہوئے معیشت کو نقصان پہنچا اور زرعی شعبے کو بہت دھچکا لگا۔ آج کسان ان کے خلاف سراپا احتجاج اور بہت سی اپوزیشن پارٹیاں اس احتجاج میں کسانوں کے ساتھ کھڑی ہیں۔ میری رائے میں یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے، ہمیں اس میں نہیں کودنا چاہیے بلکہ خاموشی سے صورتحال پر نظر رکھنی چاہیے۔
عالمی وبا کی صورتحال اور اپوزیشن کی جانب سے احتجاجی سیاست پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کورونا وبا کی دوسری لہر خطرناک حد تک آگے بڑھ رہی ہے۔ لاہور میں وائرس میں کورونا متاثرین کی شرح 10 فیصد کو چھو رہی ہے۔ اس صورت حال میں پی ڈی ایم لاہور میں جلسہ کرنے جا رہی ہے۔ اگر ہم انسانی جانوں کو لاحق خطرات کو دیکھیں تو یہ وقت جلسوں کا نہیں ہے۔ ہم جلسوں کے خلاف نہیں ہیں، پی ڈی ایم جلسے ضرور کرے لیکن وقت کی نزاکت کو پیش نظر رکھے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت جو زبوں حالی کا شکار تھی اللہ کے فضل و کرم سے دوبارہ مستحکم ہو رہی ہے۔ دوسری جانب مقبوضہ جموں وکشمیر میں قیامت برپا ہے اور افغان امن عمل آخری مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ میری نظر میں اس صورتحال میں سیاسی افراتفری اور داخلی عدم استحکام کا ماحول ہمارے لیے اچھا نہیں ہے۔ میری رائے میں پی ڈی ایم کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ پی ڈی ایم اس بوکھلاہٹ کا شکار ہے انہیں دکھائی دے رہا ہے کہ وہ بند گلی میں جا چکے ہیں۔ استعفوں کے معاملے پر پی ڈی ایم میں واضح اختلاف دکھائی دے رہا ہے۔ ایک طبقہ اسے بطور کارڈ استعمال کرنا چاہتا ہے جبکہ ایک بڑا طبقہ استعفوں کا آپشن استعمال کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ اگر یہ حکومت کو غیر آئینی طریقے سے ہٹانے اور خود آنے کی کوشش کریں گے تو انہیں بھی کوئی تسلیم نہیں کریگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ملک کو گرے لسٹ سے نکالنے اور فیٹف کے حوالے سے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی جسے انہوں نے نیب آرڈیننس میں ترمیم کے مطالبے سے مشروط کیا جب مذاکرات کو مشروط بنانے کی کوشش کی جائے تو وہ ڈائیلاگ نہیں بلکہ ڈکٹیشن شمار ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کورونا عالمی وبائی چیلنج سے نمٹنے اور قومی حکمت عملی تشکیل دینے کیلئے اپوزیشن کو دو دفعہ ڈائیلاگ کی دعوت دی لیکن انہوں نے ہمارے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ تیسری مرتبہ ہم نے اپوزیشن کو شفاف الیکشن کے حوالے مل بیٹھنے کی دعوت دی کیونکہ الیکشن کی شفافیت پر ہر مرتبہ سوالات اٹھتے ہیں وہ الیکشنز بھی بہت سی جماعتوں کو قابل قبول نہیں تھے جن میں یہ خود بسر اقتدار آئے۔
بھارتی قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بی جے پی کی سرکار نے سیکولر ہندوستان کا چہرہ مسخ کر دیا ہے۔ جو یکطرفہ اور غیر آئینی اقدامات بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کیے، انہیں وہاں کی عوام اور کشمیری قیادت بالخصوص اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقیم کشمیری بالعموم یکسر مسترد کر چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سیٹیزن امینڈمنٹ ایکٹ جیسے امتیازی قوانین کو پورے ہندوستان کے مسلمانوں نے مسترد کیا ہے۔ مودی سرکار نے این آر سی جیسے امتیازی قوانین متعارف کروائے اور بنگالیوں کو دیمک سے ترجیح دی۔
انہوں نے کہا کہ بابری مسجد کو جس طرح انہوں نے شہید کیا اور اس کی جگہ مندر بنانے کا منصوبہ بنایا وہ سب کے سامنے ہے تو سیکولر ہندوستان کو تو انہوں نے ملیہ میٹ کر دیا ہے۔ دوسری طرف بھارت سرکار کورونا وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔