دولت مند بننے کی سائنس

Published On 09 December,2020 07:21 pm

لاہور: (سپیشل فیچر) جب آپ پہلی نظر میں اس عنوان کو دیکھتے ہیں تو ذہن میں آتا ہے کہ مضمون نگار نے شاید لوگوں کو لالچ وغیرہ کا جھانسہ دیا ہے لیکن جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔

یہ مضمون روحانی حوالے سے لکھا گیا ہے جس میں تمام زمینی حقائق اور مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کا موضوع کائنات اور فطری قوتیں ہیں۔

کائنات میں موجود ہر چیز ایک دوسری سے مربوط ہے اور تمام اجزاء کے مجموعے کا نام دنیا ہے۔دراصل اس نظریہ کی بنیاد مشرقی فلسفے اور مذہب پر ہے۔ ڈیکارٹ، اسپائی نوزا، شوپنہاور، ہیگل اور ایمرسن کا اس نے کئی سالوں تک مطالعہ کیا۔ ان لوگوں نے نئے خیالات بھی دیئے تھے تاکہ انسانیت کو مفید بنانے کے عقیدے کو طاقتور کیا جا سکے۔

روایتی طور پر دنیا اس بات کی قائل تھی کہ روحانیت کو صرف غربت میں رہتے ہوئے حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بات درست نہیں جب تک انسان معاشی حوالے سے آزاد نہ ہو گا تو وہ روحانیت بھی حاصل نہ کر سکے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات کا ارتقا تب ہی ہو گا جب ہم فطری اصولوں کے مطابق پوری دیانتداری سے امیر اور دولت مند بننے کی کوشش کریں گے۔

فطرت ہر وقت آگے ہی آگے بڑھتی رہتی ہے۔ یہ کائنات کی حقیقت ہے۔ اس عمل سے ہر وقت بہتری اور شکست میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ خدا اپنے قوانین اور اصولوں میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں کرتا۔

اس لیے یہ بات آپ کی فطرت میں شامل ہونی چاہیے کہ آپ ہر وقت زیادہ سے زیادہ ترقی کی کوشش کریں۔ کائنات کے فطری اصول کے مطابق ہر چیز بڑھتی ہے اس طرح آپ کو بھی اس اصول کے ساتھ بڑھنا چاہیے اور اپنے دولت مند ہونے کے عمل کو سمجھنا چاہیے۔

اس طرح آپ کائنات سے ہم آہنگ رہیں گے اس لیے اس معاملے میں آپ کو ولولے اور جوش کے ساتھ دولت مند بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ فطری قانون کے مطابق تو جانور بھی زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

انسان تو اعلیٰ ذہن رکھتا ہے اس لیے اسے اپنی ذہنی طاقت کو استعمال میں لا کر مادی اور روحانی ذرائع کو حاصل کرنا چاہیے۔جب انسان کے پاس دولت زیادہ ہو گی تو وہ سخاو ت بھی زیادہ کرے گا اور دوسروں کی مدد بہتر طو رپر کر سکے گا۔

تخلیق کرو، مقابلہ نہ کرو

جب کائنات جوہر اعلیٰ سے تخلیق ہوئی تو اس کائنات کو خود اختیار نہ تھا کہ اسے کیسے بننا ہے۔ یہ سب کچھ کائنات کے اصولوں کے مطابق ہوا تھا۔اس طرح اس کائنات کی تمام قوتیں لامحدود ہیں۔ آپ کو بالکل خیال نہیں کرنا چاہیے کہ آپ دوسروں سے کم حاصل کریں گے کیونکہ یہ کائنات اصولوں کی طاقت کو استعمال میں لا کر کوئی بھی حاصل کر سکتا ہے۔جب آپ اللہ سے حاصل کرتے ہیں تو اس سے دوسروں کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اس لیے دولت وغیرہ حاصل کرنے کے لیے کسی سے مقابلہ نہیں ہوتا بلکہ اپنی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال ہوتا ہے۔مقابلہ بازی سے فریقین کا نقصان ہوتا ہے جبکہ تخلیق کرنے سے ہر کسی کو فائدہ ہوتا ہے۔

کیا لوگوں نے دولت مقابلہ بازی سے حاصل کی ہے؟

یہ لوگ تو اس لیے دولت مند ہیں کہ انہوں نے دنیا کی تعمیر و ترقی میں حصہ لے کر دوسروں کو فائدے دیئے اور اس طرح اپنا حصہ وصول کر لیا۔ آپ غور کریں دوسرے لوگ آپ کو مقابلہ میں شکست نہیں دے سکتے۔ اگر آپ ایسی بے مثال ہنرمندی حاصل کریں، یہ ہنرمندی آپ اپنے تخیل کی مدد سے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سے آپ کی شخصیت بھی شاندار ہو جائے گی۔ بڑے بڑے ادارے اس لیے مسلسل ترقی کرتے رہتے ہیں کہ ان میں کام کرنے والے ہنرمند اور تخلیقی اذہان کی مجموعی قوت بہت زیادہ ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ مسلسل ترقی کرتے رہتے ہیں۔

ہم آہنگی

جب آپ کسی چیز کو حاصل کرتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو کچھ محنت اور کوشش بھی کرنا پڑتی ہے تب ہی آپ اس چیز کے حقدار بنتے ہیں۔کیونکہ آپ جس قدر کسی چیز سے ہم آہنگی رکھیں گے اسی قدر جلد وہ چیز آپ حاصل کر لیں گے۔آپ کی سوچ آپ کے لیے سب کچھ تخلیق کر سکتی ہے۔ وہ سب کچھ جس کی آپ کو خواہش اور ضرورت ہے۔

جب رات کو آپ خدا کو اپنے اندر محسوس کرتے ہیں تو خدابھی آپ کی سنتا ہے ، یہ قانون فطرت ہے۔ یہی ہم آہنگی کا قانون ہے۔ اپنا وقت دنیا کو موردالزام ٹھہرانے میں ضائع نہ کرو بلکہ دنیا کے افراد کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرو۔ اس طرح آپ کی تکالیف میں کمی آئے گی۔ کیونکہ تمام انسانوں کا تعلق اسی دھرتی سے ہے۔ اسی دھرتی کے ارتقاء میں انسان نے بھی ارتقاء حاصل کیا ہے۔ اس لیے اس دھرتی سے اپنا حصہ حاصل کرنا عین فطری بات ہے۔ماضی میں اگر آپ معاشی مشکلات کا شکار رہے ہیں تو اب اس کی فکر مت کریں اگر آپ دولت مند بننا چاہتے ہیں تو پھر غربت کے لفظ کو دہرانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔

غربت کا سبب

جو لوگ غریب ہیں وہ اس لیے غربت میں پھنسے ہوئے ہیں کہ انہوں نے کبھی اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بارے میں سوچاہی نہیں۔ یہ لوگ ہمیشہ کسی خیرات کے منتظر رہتے ہیں۔ اگر ان لوگوں کو دولت کے حوالے سے متاثر کیا جائے اور ان کو کوئی راستہ بتایاجائے تو وہ ایک دن غربت سے چھٹکارا حاصل کر لیں گے۔یہ سوال ہمیشہ پوچھا جاتا ہے کہ دولت مند کیوں بنا جائے؟

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں تھوڑے پر قناعت نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیں اس دنیا میں ایک معیار اور وقارکے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لیے دولت کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مال چاہتا ہے۔ خواہش ایک ایسا انجن ہے جو اعلیٰ معیار اور دولت کے حصول میں بنیادی کردار ادا کرتاہے۔

دولت کے بغیر یہ زندگی کافی مشکل ہوتی ہے ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اخلاقی اور روحانی عظمت کے حصول کے لیے بھی ان بنیادی اصولوں کو اپنانا ضروری ہے۔اگر آپ کے پاس دولت نہ ہو گی تو علم بھی نہ ہو گا۔ اس لیے ہم اس وقت تک دانشور نہیں بن سکتے جب تک ہم بیشمار کتابیں خرید کرنہ پڑھیں گے۔

تحریر: ویلس ڈی واٹلز