لاہور: (دنیا نیوز) پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے جنوری کے آخر یا فروری کے اوائل میں لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد مارچ میں استعفے ساتھ لے کر جائیں گے.
مینار پاکستان پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ زخم گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ غصے اور ناراضی کا عنصر بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمیں ایک قوم کی طرح رہنا ہوگا۔ اسی عوام میں سے پارلیمنٹ، عدلیہ اور فوج بنتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ادارے ایک دوسرے کے مقابلے میں آتے ہیں تو پھر قومی یکجہتی کبھی برقرار نہیں رہ سکتی۔ آنے والے دنوں میں پاکستان میں انارکی دیکھ رہا ہوں۔ ہمیں انارکی سے پہلے حالات کو سنبھال لینا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمان نے خدشہ ظاہر کیا کہ کہیں ایسے حالات نہ پیدا ہو جائیں کہ عوام اور سٹیبلشمنٹ آمنے سامنے کھڑے ہو جائیں۔ میں سٹیبلشمنٹ کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ عوام کے سامنے سے ہٹ جاؤ، عوام کو اسلام آباد پہنچنے دو۔ پاکستان پر ناجائز حکومت مسلط ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ سٹیبلشمنٹ نے ناجائز اقتدار کے لیے دھاندلی کی تھی۔
پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ ہم کشمیریوں کو آزادی نہیں دلا سکے۔ کشمیر کو تین حصوں پر تقسیم کا فارمولا مودی نے الیکشن سے پہلے دیا تھا۔ عمران نے مودی کی کامیابی کے لیے دعائیں کیں۔ 73 سال تک بھارت کشمیر کو ہڑپ کرنے کی جرات نہیں کر سکا تھا۔ آج بھارت نے کشمیر کو ہڑپ کر لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم نے اس تحریک کا آغاز کرتے ہوئے کچھ مقاصد متعین کیے ہیں، ہم وہ مقاصد آج بیان کرنا چاہتے ہیں۔ سربراہی اجلاس میں فیصلے کیے گئے ہیں کہ سیاست میں انٹیلی جنس اداروں کا خاتمہ کیا جائے گا، آزادانہ الیکشن کا انعقاد کیا جائے گا۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے ہنگامی معاشی اقدامات کیے جائیں گے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ تبدیلی کا مطلب عالمی سٹیبلشمنٹ کی غلامی ہے۔ ہم غلام بننے کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔ آزادی کے جذبے کے ساتھ ہم نے اس ملک کو بچانا ہے۔ ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگ پریشان ہیں۔ اگر ہم نے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو مطمئن کرنا ہے تو آئیں انقلاب برپا کریں۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ادارے کھوکھلے اور دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ ملک چل نہیں رہا، حکومت نااہل اور ناجائز ہے۔ اس حکومت کو ہٹانے کے لیے جنات اور فرشتوں نے نہیں عوام نے کردار ادا کرنا ہے۔
ملک کی معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک کے مطابق تاریخ میں پہلی بار بجٹ زیرو سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔ معیشت کی ابتری نے غریب کی کمر توڑ دی ہے۔ نوجوانوں کو سبز باغ دکھانے والوں نے بے روزگار کر دیا ہے۔