لاہور: (روزنامہ دنیا) پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد “زوال” کا شکار رہی۔ 2020ء میں بھی اس کی مشکلات کم نہ ہو سکیں۔ مرکزی قیادت پر کرپشن کے الزامات نے پیپلزپارٹی کی مشکلات مزید بڑھا دی ہیں۔
مقبولیت کا گراف اس حد تک گر گیا ہے کہ پیپلز پارٹی پہلے نمبر سے تیسرے نمبر پر چلی گئی اور پارٹی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے بعد ان کی ہمشیرہ آصفہ بھٹو بھی اب سیاست میں پوری طرح متحرک ہو چکی ہیں۔ پیپلز پارٹی کو سندھ کے سوائے ملک بھر میں عام انتخابات میں عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے نتیجے میں سندھ اسمبلی کے سوائے دیگر اسمبلیوں میں اس پارٹی کی پوزیشن انتہائی کمزور رہی اور پارٹی اس حد تک کمزور ہو گئی کہ قومی اسمبلی میں صرف 53، سندھ اسمبلی میں 99، خیبر پختونخوا میں 5، بلوچستان میں صفر اور پنجاب اسمبلی کے اندر اسے گنتی کی 7 نشستیں ملیں۔
بہت سی نامور شخصیات پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو گئی ہیں۔ سندھ حکومت کی کارکردگی بھی قابل تعریف نہ رہی، کرپشن کے الزامات کم نہیں ہو رہے۔
بے نظیر بھٹو کی دبنگ شخصیت کے سامنے تمام پارٹی رہنما ان سے ڈر کر رہتے تھے، ان کے بعد آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو وہ مقام حاصل نہ ہو سکا۔ ایم کیو ایم کے کمزور ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کراچی پر گرفت مضبوط نہ کر سکی بلکہ تحریک انصاف نے کراچی پر اپنی گرفت قائم کر لی۔
پیپلز پارٹی کی تنظیموں کی مقررہ مدت تین سال پوری ہونے کے بعد بلاول بھٹو نے پارٹی کی تنظیم نو کی بجائے موجودہ تنظیموں کو ہی کام جاری رکھنے کے لئے کہا ہے۔
27 دسمبر کو ہونے والی بے نظیر بھٹو کی 13 ویں برسی پر پہلی بار پیپلز پارٹی کے علاوہ پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کے رہنماﺅں کو مدعو کر کے ان سے خطاب بھی کرایا گیا۔