اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے انھیں چیلنج کیا ہے کہ وہ ثبوت دیں کہ فوج کیسے ہماری حکومت کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ انہون نے کہا کہ حیرت ہو رہی ہے کہ یہ کیا چاہتے ہیں کہ فوج کیا کرے؟
وزیراعظم نے واضح کیا ہے کہ حکومت اداروں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔ 95 فیصد نیب کیسز ہم نے ان کے خلاف نہیں بنائے۔ انہوں نے اپنے اپنے ادوار میں ایک دوسرے پر کیس بنائے۔ کیا نیب نے میرے کہنے پر عبدالعلیم خان اور سبطین خان کو جیل میں ڈالا؟ نیب کے کاموں میں مداخلت کرتے ہیں نہ ججز کو فون کرتے ہیں۔
تفصیل کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن رہنماؤں کے الزامات کا بھرپور جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاک فوج قربانیاں دے رہی ہے، یہ اس کیخلاف بیانات دے رہے ہیں۔ کس جمہوریت میں آرمی چیف کو کہا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت کو ہٹائیں۔ نواز شریف نے آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ پر تنقید کی۔ دھاندلی کا ثبوت نہیں دیا گیا اور کہا گیا کہ فوج نے دھاندلی کرائی۔
وزیراعظم عمران خان نے یہ باتیں دنیا نیوز کے پروگرام ‘’آن دی فرنٹ’’ میں خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن مجھے فوج کا کٹھ پتلی کہتی ہے۔ فوج ریاستی ادارہ ہے اور میں ریاست کا منتخب وزیراعظم ہوں۔
اپوزیشن فیصلہ کر لے کہ میں کٹھ پتلی ہوں یا فاشسٹ؟
عمران خان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن مجھے کٹھ پتلی بھی کہتی ہے اور فاشسٹ بھی، اپوزیشن فیصلہ کر لے کہ میں کٹھ پتلی ہوں یا فاشسٹ؟ فوج کو پتا ہے عمران خان کرپشن نہیں کر رہا بلکہ پاکستان کیلئے کام کر رہا ہے۔ فوج ہر اس وزیراعظم کا ساتھ دے گی جو ملک کیلئے کام کرے گا۔
خواجہ آصف کی گرفتاری۔ کیا وزیراعظم نے حکم دیا؟
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ میں خواجہ آصف کےخلاف تحقیقات کرنے کا کہا۔ ہم جانتے تھے اقامہ منی لانڈرنگ کا طریقہ ہے۔ خواجہ آصف کو دبئی سے کیش کی صورت میں رقم آ رہی تھی۔
رانا ثناء اللہ کیخلاف منشیات کا کیس
لیگی رہنما رانا ثناء اللہ کیخلاف منشیات کیس پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے نہیں اے این ایف نے یہ کیس بنایا۔ کابینہ اجلاس میں ڈی جی اے این ایف سے پوچھا کیس میرٹ پر ہے؟ اداروں کے کاموں میں مداخلت نہیں کرتا۔ اے این ایف اب بھی کہہ رہی ہے کہ کیس ٹھیک ہے۔
پاکستان کو درپیش مسائل اور ان کا حل
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کوئی بے وقوف ہی ہوگا جسے پتا نہ ہو کہ ملک کے کیا مسائل ہیں۔ میں نے وزیراعظم بننے سے پہلے کئی انٹرویوز میں کہہ چکا تھا کہ پاکستان کو مسائل سے نکالنے کا کوئی آسان حل نہیں ہے۔ ان مسائل سے نکالنے کیلئے جو حل ہیں، وہ تکلیف دہ ہیں۔
انہوں نے پروگرام کے دوران ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کو عوام کیلئے آسان پیرائے میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب ایک گھر پر قرضہ چڑھ جائے تو خرچے کم کرنا پڑتے ہیں، جب تک آپ کی آمدنی بڑھتی نہیں ہے۔ یہی مثال صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک پر لاگو ہوتی ہے کہ جب حالات ایسے ہوں تو مشکلات درپیش آتی ہیں۔ مجھے وزیراعظم بننے سے پہلے ہی علم تھا کہ سابق حکمران اپنے دور اقتدار میں پاکستان کیساتھ کیا کر رہے ہیں۔ ساٹھ سال کی تاریخ میں پاکستان کا ٹوٹل قرضہ 6 ہزار ارب تھا لیکن صرف دس سالوں میں اسے 30 ہزار ارب تک پہنچا دیا گیا۔ انہوں نے ملک کے سارے ادارے بینک کرپٹ کر دیئے
تیاری سے متعلق میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا
ان کا کہنا تھا کہ میں نے تو اپنی تقریر میں امریکا کے نومنتخب صدر جوبائیڈن کی مثال دی تھی کہ انھیں گزشتہ ڈھائی مہینوں سے تمام اداروں کی جانب سے بریفنگ دی جا رہی ہے، وہ جب اقتدار سنبھالیں گے تو ان کی ساری ٹیم تیار ہوگی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں اقتدار سنبھالنے کے بعد پتا چلنا شروع ہوا کہ پی آئی اے کا قرضہ 450 ارب روپے پر پہنچ چکا ہے، سٹیل ملز کے اوپر 350 ارب روپے کا قرض چڑھ چکا ہے۔ میرے کہنے کا مطب یہ تھا کہ اگر حکومت میں آنے سے پہلے پریزینٹیشنز مل جائیں تو اقتدار سنبھالتے ہی کام شروع کر دیں گے۔
ایم کیو ایم سے نفرت محبت میں کیسے بدلی؟
اتحادیوں کیساتھ حکومت بنانے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں نے الیکشن کے بعد میڈیا کے سامنے واضح طور پر کہا تھا کہ اگر مجھے مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی کیساتھ اتحاد بنا کر حکومت میں آنا پڑا تو اس کے بجائے میں اپوزیشن میں بیٹھوں گا۔ اگر میں ان میں سے کسی ایک کیساتھ بھی اقتدار میں آجاتا تو احتساب کا عمل شروع ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق اور جی ڈی اے کیساتھ ہمارا اتحاد ہے۔ یہ جماعتیں مجھے احتساب سے نہیں روک رہیں لیکن ان کی جگہ پیپلز پارٹی یا ن لیگ ہوتی تو انہوں نے کبھی بھی ایسا نہیں کرنے دینا تھا۔ ہمارے تمام اتحادی جماعتوں کیساتھ الحمدللہ بہت اچھے حالات ہیں
ان کا کہنا تھا کہ میری لڑائی ایم کیو ایم کے قائد کیخلاف تھی۔ جب کمروں میں بھی اس شخص کا نام نہیں لیتا تھا میں نے پبلک میں جا کر اسے ایکسپوز کیا تھا۔ اب باقی ایم کیو ایم اس سے علیحدہ ہو گئی ہے تو اب ہماری ان سے کوئی لڑائی نہیں ہے۔ ایم کیو ایم اور ہماری بہت سی چیزیں مشترک ہیں وہ بھی وراثتی سیاست کیخلاف ہیں اور ہم بھی۔ مسلم لیگ ق ہمارے منشور کیساتھ چل رہے ہیں میں بہت خوش ہوں۔ انہوں نے مجھے کبھی احتسبا کے عمل سے نہیں روکا۔
شہباز شریف کا کیس
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کورونا وائرس پھیلا تو وہ بھاگے بھاگے لندن سے واپس پہنچے اور لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے کرپشن کے کیسز کی وجہ سے آنا ہی نہیں تھا۔ ان کیخلاف کیس بہت صاف ہے
کیا وزیراعظم دوبارہ اپنی ٹیم تبدیل کریں گے؟
وزیراعظم نے کہا کہ میں جس مقصد پر چل رہا ہوں اس کیلئے اپنی ٹیم میں آئندہ بھی تبدیلیاں کر سکتا ہوں کیونکہ میں نے یہ میچ جیتنا ہے۔ میں چیف جسٹس سے کہوں گا کہ اگر میرے کسی بھی وزیر کیخلاف کرپشن کے الزام لگیں اس پر کیس بنا کر روازنہ کی بنیاد پر سماعت کی جائے۔
این آر او کیلئے اپوزیشن کا دباؤ
عمران خان نے ایک بار پھر اپنا بیان دہراتے ہوئے کہا کہ این آر او کیلئے دباؤ ڈالنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ اپوزیشن جو مرضی کرے، این آر او نہیں دوں گا۔ پہلے دن کہا تھا کہ تمام اپوزیشن اکٹھی ہو جائے گی۔ اپوزیشن کی سیاست اقتدار میں آ کر مال بنانا ہے۔ اپوزیشن کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہو سکتا۔
وزیراعظم جہانگیر ترین کے بارے میں بات کرنے سے کیوں گریز کرتے ہیں؟
پی ٹٰی آئی کے سابق رہنما جہانگیر ترین کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ان کی ہماری پارٹی کے اندر پوزیشن تھی۔ جب انھیں نااہل قرار دیا گیا تو آفشیلی طور پر ان کی پوزیشن ختم ہو گئی۔ ہماری حکومت میں ان کا رول صرف ایڈوائزی کا تھا، کیونکہ وہ ماڈرن زراعت کے ایکسپرٹ سمجھے جاتے ہیں۔ ان کیخلاف جیسے ہی انکوائری شروع ہوئی ہم نے ان کو تمام ذمہ داریوں سے ہٹا دیا۔ ان کیخلاف انکوائری میرٹ پر ہو رہی ہے۔
حکومت کیخلاف اپوزیشن کی تحریک اور اس کا مستقبل حکومت کی نظر میں
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کبھی عوامی تحریک نہیں چلا سکتی۔ عوام تب نکلتے ہیں جب ان کے مسائل کیلئے تحریک چلائی جائے۔ اپوزیشن اپنی کرپشن بچانے کیلئے سڑکوں پر نکل رہی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے ڈاکو انقلابی بن گئے۔ پی ڈی ایم کو مینار پاکستان پر جلسہ کرنے سے نہیں روکا۔ جانتا تھا کہ لاہور والے ان کی چوری بچانے کیلئے نہیں نکلیں گے۔ لاہوریوں نے کسی کی چوری بچانے کیلئے سڑکوں پر نہیں آنا تھا۔