‘’جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم, جو چلے تو جاں سے گزر گئے’’

Published On 18 February,2021 10:21 pm

لاہور: (دنیا نیوز) 8 بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیوں پر سبز ہلالی پرچم لہرانے والے محمد علی سدپارہ کا سفر تمام ہوا۔ پہاڑوں سے پیار کرنے والے پہاڑوں کے بیٹے محمد علی سدپارہ نے اپنی آخری سانس بھی فلک بوس پہاڑوں کی آغوش میں ہی لئے۔

محمد علی سدپارہ نے سکردو کے نواحی گاؤں سدپارہ کے محلے چھوغو گڑونگ میں 1976ء میں آنکھ کھولی۔ کوہ پیمائی میں کامیابیاں سمیٹنے کے بعد اپنے نام کے ساتھ علاقے کا نام ‘سدپارہ’ جوڑ لیا۔

انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ایک پورٹر کے طور پر کیا۔ پاک فوج کو سیاچن جیسے برفیلے علاقے میں سامان رسد پہنچانے کا اعزاز بھی محمد علی کے حصے میں آیا۔

علی سدپارہ نے کوہ پیمائی کے میدان میں فتح کے جھنڈے گاڑے۔ نامور کوہ پیماؤں کے لیے راستہ بنانا اور پھر ہاتھ تھام کر چوٹی پر بلند کرنا علی کا پیشہ رہا۔

محمد علی سدپارہ نے 2004ء میں پہلی مرتبہ ٹیم کے ہمراہ کے ٹو کی چوٹی سر کی۔ یہیں سے انہوں نے اپنے کیریئر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ علی سدپارہ نے 2006ء میں گیشربرم ٹو کو سر کیا، 2006ء میں ہی سپانتک پیک، 2008ء میں نانگا برپت، 2008ء میں ہی چین میں واقع مزتاغاتا، 2009ء میں دوبارہ نانگا پربت، 2010ء میں بروم ون اور 2016ء کی سردیوں میں پھر نانگا پربت کو سر کیا۔

2015ء میں بھی نانگا پربت کو سر کرنے کے ارادے سے سفر کیا مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ دھن کے پکے علی سدپارہ نے 2016ء میں اسے سردی کے موسم میں سر کر کے ہی دم لیا۔

2017ء میں براڈ پیک، 2017ء میں ایک بار پھر نانگا پربت، 2017ء میں نیپال کی پوموری پیک، 2018ء میں کے ٹو جس کے بعد 2019ء میں نیپال کی لوہٹسے، مکالو اور ماناسلو چوٹی کو بھی سر کیا۔

محمد علی سدپارہ آئندہ سال ماؤنٹ ایورسٹ کو بھی سر کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، مگر اس بار سردیوں کے موسم میں کےٹو کی مہم جوئی کے دوران 5 فروری کو وہ اپنے دو غیر ملکی آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے جے پی موہر کے ہمراہ کےٹو پر لاپتا ہو گئے۔

کے ٹو پاک چین سرحد پر قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔ 1954ء سے اب تک اس کو سر کرنے کی کوشش میں 87 کوہ پیماؤں کی جان جا چکی ہے۔

چوٹی تک پہنچنے والوں کی تعداد 377 ہے۔ کے ٹو کے خطرناک ہونے کی کئی قدرتی وجوہات ہیں، یہ سرد ترین اور تیز ترین ہواؤں والا پہاڑ ہے۔ اس کی چوٹی کے راستے میں کوہ پیماؤں کو عمودی چٹانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جو 80 درجے کے زاویے پر ہوتی ہیں جبکہ برفانی تودوں کا گرنا ایک الگ خطرہ ہے۔ 2008ء میں کے ٹو پر برفانی تودہ ایک ٹیم پر گرا جس میں 11 کوہ پیماؤں کی جان چلی گئی تھی۔ یہ کے ٹو پر پیش آنے والا اب تک کا سب سے بڑا حادثہ ہے۔