اسلام آباد: (دنیا نیوز) معاون خصوصی برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ بھارت 5 اگست کا معاملہ حل کرے اور بات چیت کا ماحول بنائے کیونکہ وہ ماحول بنائے گا تو گفتگو آگے بڑھے گی، پاکستان تو بار بار امن کی بات کر رہا ہے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے واضح کیا کہ ہم صرف چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن قائم ہو، ہمارا کوئی فیورٹ نہیں ہے۔
یہ اہم بات معاون خصوصی معید یوسف نے دنیا نیوز کے پروگرام ‘’دنیا کامران خان کیساتھ’’ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے زور دیا کہ امریکا کو افغانستان کے معاملے پر واضح پالیسی اپنانا ہوگی۔
پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے افغان طالبان سے معاہدہ کیا تھا۔ یکم مئی کو امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا ہونا ہے۔ طالبان کے بڑے سیریس تحفظات ہیں۔ بیس سال سے یہی ہوتا ہے، کوئی نہ کوئی مسئلہ ہو جاتا ہے۔
معید یوسف کا کہنا تھا کہ افغانستان کا مسئلہ بات چیت سے ہی حل ہونا ہے۔ افغانستان میں امن سے خطے میں استحکام آئے گا۔ افغانستان میں امن سے پاکستان کو بھی فائدہ ہوگا۔ افغانستان میں 20 سال سے جنگ جاری ہے، ہم چاہتے ہیں کہ وہاں جلد امن آئے۔ دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ بھارت کو افغان امن میں دلچسپی نہیں ہے۔
پاک بھارت تعلقات بارے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) میں قیمتی جانیں ضائع ہو رہی تھیں، اب بھارت اپنی غلطی کو تسلیم کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان، روس، چین، ایران کو افغان تنازع کے حل کیلئے ملکر کام کرنا ہو گا: بلنکن
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے کہا ہے کہ پاکستان، روس، چین، ایران کو افغان تنازع کے حل کیلئے مل کر کام کرنا ہو گا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی وزیرِ خارجہ کی جانب سے افغان صدر کو لکھے گئے خط میں کہا کہ امریکا یکم مئی کو افغانستان سے تمام افواج کے انخلا پر غور کر رہا ہے جب کہ دیگر آپشنز بھی زیرِ غور ہیں۔
خط میں صدر غنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہم آپ پر واضح کر دینا چاہتے ہیں واشنگٹن میں ہماری پالیسی پر غور ہو رہا ہے اور امریکا کسی بھی آپشن کو مسترد نہیں کر سکتا۔ ہم یکم مئی کو امریکی فوج کے مکمل انخلا کے علاوہ دیگر آپشنز پر بھی غور کر رہے ہیں۔
امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان کی سیکیورٹی صورتِ حال اور طالبان کے مزید علاقوں پر قبضے کے خدشے کے پیشِ نظر بلنکن نے اشرف غنی سے کہا کہ میں آپ پر اسی لیے واضح کر رہا ہوں شاید آپ کو میرے لہجے سے اندازہ ہو کہ ہمیں اجتماعی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔
خط میں مزید کہا گیا کہ امریکا اقوامِ متحدہ سے کہہ سکتا ہے کہ وہ روس، چین، پاکستان، ایران کے وزرائے خارجہ اور سفارت کاروں پر مشتمل ایک کانفرنس بلائے جو افغان امن عمل کے لیے متفقہ حکمتِ عملی اپنانے پر تبادلۂ خیال کریں۔ یہی وہ ممالک ہیں جنہیں افغان تنازع کے حل کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ وہ ترکی سے بھی کہیں گے کہ آئندہ چند ہفتوں میں وہ طالبان اور افغان اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک کانفرنس کی میزبانی کرے جس میں امن معاہدے کو حتمی شکل دی جائے اور میں صدر غںی سے بھی کہوں گا کہ وہ بھی اپنا وفد یہاں بھیجیں۔ وہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے ایک تجویز پر بھی کام کر رہے ہیں تاکہ طالبان کو موسمِ بہار میں حملوں سے روکا جا سکے۔
انہوں نے صدر غنی سے کہا کہ وہ سیاسی مخالفین اور دیگر فریقین کے ساتھ مل کر ایک متحدہ محاذ تشکیل دیں جو جامع ہو اور اس پر افغان عوام کا اعتماد بھی ہو۔ افغان دھڑوں کے مابین عدم اتفاق نے 90 کی دہائی میں ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
خط میں زلمے خلیل زاد کی تجاویز کا حوالہ دیتے ہوئے صدر غنی پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ان پر غور کریں تاکہ افغان امن عمل کو تیزی سے آگے بڑھایا جا سکے۔
افغان میڈیا ’طلوع نیوز‘ کے مطابق افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح نے کہا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ بلنکن کے خط کے بعد امن سے متعلق ہمارے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
انہوں نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے آئین اور عوام کے ووٹ سے متعلق حقوق پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جائے گا۔