اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ پاکستان ایشیا کے تمام ممالک سے سستا ملک ہے، ہمارے ہاں بس چائے مہنگی ہے اس کے علاوہ تمام چیزیں سستی ہیں۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ کے دوران فواد چودھری نے کہا کہ الیکٹرانک مشین کا معاملہ 2012 میں سب سے پہلے آصف علی زرداری نے اٹھایا تھا، اس کے بعد 2016 میں اس پر بات چیت ہوئی اور نواز شریف کی حکومت نے 2017 میں الیکشن کمیشن کو اس پر ایک جامع رپورٹ بنانے کی ہدایت دی۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ اپنی شرائط پر مبنی ایک ٹینڈر جاری کرے تاکہ ساری دنیا میں جہاں ای وی ایم مشین بنتی ہیں وہ کمپنیاں ان سے رابطہ کریں گی۔ ہم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے مؤقف کو ہی آگے بڑھا رہے ہیں اور الیکشن کمیشن نے خود آئندہ انتخابات کے لیے مشینیں مانگی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کابینہ نے پاکستان اور عراق کے مابین فضائی سفری معاہدے میں ترمیم کی اجازت دی۔ اس فیصلے سے پاکستان اور عراق کے درمیان کمرشل فلائیٹس میں اضافہ ممکن ہوگا۔
فواد چودھری نے بتایا کہ کابینہ نے پاکستانی 10، 50، 100 اور ایک ہزار روپے کے پرانے کرنسی نوٹ اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے تبدیل کرنے کی مدت میں 31 دسمبر 2022ءتک توسیع کی اجازت دی۔ یہ وہ کرنسی نوٹ ہیں جن کا ڈیزائن 2005ءمیں تبدیل ہو گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ افغان عوام کی فلاح و بہبود اور امداد کے لئے کام کرنے والی بین الاقوامی این جی اوز کے رجسٹریشن کے طریقہ کار کو سہل بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ انسانی ہمدردی اور افغانستان کے عوام کو امداد کی فراہمی کے پیش نظر کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے راستے دوسرے ممالک میں نقل مکانی کرنے والے افغان باشندوں کے لئے دی گئی سہولت کے لئے مزید 60 دن کی توسیع دی گئی ہے۔ اس سہولت میں زمینی اور فضائی راستوں سے سفر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ افغان عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والے عالمی این جی اوز کے اہلکاروں کے لئے پاکستانی ویزے کے حصول کے طریقہ کار کو سہل بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
میڈیا بریفنگ کے دوران سوال کے جواب میں کہا کہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں پیٹرول سستا ہو رہا ہے لیکن اتنا نہیں ہوا ، دعا کریں پیٹرول مزید سستا ہو جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں مہنگائی کا ایجنڈا بھی زیر غور آیا، مسلسل تیسرے ہفتے حساس پرائس انڈیکس (ایس پی آئی) نیچے جا رہا ہے اور قیمتوں میں کمی کا عمومی رجحان دیکھا جارہا ہے۔ انڈیکس کے مطابق ٹماٹر، چکن، آلو کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے جبکہ چینی اور آٹے کی قیمتوں میں استحکام رہا۔
وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود بھی نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے دالیں درآمد کرتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس وقت بھی پاکستان، ایشیا کے دوسروں ممالک سے بہتر ہے اور بھارت، سری لنکا، بنگلا دیش سمیت ایشیا کے تمام ممالک سے سستا ہے۔ ہمارے یہاں بس چائے مہنگی ہے، اس کے علاوہ تمام چیزیں سستی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس صرف کراچی اور حیدر آباد کا مسئلہ ہے، کراچی میں اس وقت ایک ہزار 300 سے زائد قیمت پربیس کلو آٹا فروخت کیا جارہا ہے، ہمارے شور مچانے کے بعد سندھ حکومت نے تھوڑی بہتری کی تھی لیکن اب بھی آٹا مہنگا ہے، اسی طرح ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے کراچی میں چینی کی قیمت بھی زیادہ ہے۔ حکومت سندھ صوبے میں آٹا اور چینی کی قیمتیں کنٹرول نہیں کر پارہی لہٰذا ہم ان سے درخواست کرتے ہیں کہ کنٹرول کو بہتر کرے۔
کسانوں کے لیے فرٹیلائزر کے معاملے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ گیس بحران کے باوجود جتنی اچھی طرح اس حکومت نے فرٹیلائزر کے معاملے کو حل کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی، پچھلے سال ہماری پانچ بمپر فصلیں پیدا ہوئیں جس کے باعث کسانوں کو 400 ارب روپے اضافی آمدنی ہوئی، اس وقت میں یوریا کی قیمت 10 ہزار روپے سے زائد ہے، پاکستان میں ایک ہزار 700 روپے کے سرکاری ریٹ پر تھیلا مل رہا ہے اور جہاں بلیک میں ملنے کی شکایت ہے وہاں بھی 2 ہزار 200 روپے کا تھیلا مل رہا ہے۔
گوادر کے معاملے پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ گوادر کے مسئلے پر دو وفاقی وزرا اسد عمر اور زبیدہ جلال گوادر جائیں گے اور مظاہرین سے مذاکرات کرتے ہوئے وہاں کے حالات پر تبادلہ خیال کریں گے جبکہ وزیر اعظم اس معاملے پر پہلے ہی نوٹس لے چکے ہیں۔ اسلام آباد سے کئی گنا زیادہ گوادر میں پینے کے پانی پر خرچہ کیا گیا ہے، 700 ارب روپے کے سدرن بلوچستان منصوبے کا اعلان کر چکے ہیں جس میں 560 ارب روپے خالصتاً وفاق دے گا، اس کے باوجود اگر مسئلہ حل نہیں ہو رہا تو تحقیقات کی ضرورت ہے، دونوں وزرا وہاں جاکر اس کا جائزہ لیں گے اور وزیر اعظم کو جامع رپورٹ پیش کریں گے۔
فواد چودھری نے کہا کہ شہروں میں رہنے والے صرف 28 فیصد لوگوں کا بوجھ 78 فیصد لوگ اٹھا رہے ہیں جو گیس سے محروم ہیں، تمام شہروں میں فراہم کی گئی گیس سبسڈی پر دی جارہی ہے اور اس کا بوجھ 78 فیصد ان لوگوں پر آرہا ہے جو کوئلہ، لکڑی اور ایل پی جی استعمال کرتے ہیں لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصے نہیں چلے گا۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے خبردار کرتے ہوئے مزید کہا کہ ملک میں ہر سال گیس کے ذخائر میں کمی واقع ہورہی ہے، پچھلے برس بھی 9 فیصد گیس کم ہوئی اور رواں سال بھی گیس کے ذخیروں میں 9 فیصد کمی آئی ہے، چند برس بعد ملک میں گیس نہیں رہے گی۔
انہوں ںے مزید کہا کہ بڑے شہروں میں رہنے والے وہ لوگ جو سستی گیس کے عادی ہوچکے ہیں انہیں اپنی عادتیں بدلنی ہوں گی اور حکومت کو گیس کا پورا سسٹم بدلنا ہوگا کیوں کہ توانائی کے ذخیروں پر ان 78 فیصد لوگوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ بڑے شہروں میں رہنے والے 28 فیصد افراد کا ہے۔