لاہور: (خاور گھمن) گزشتہ ہفتے لاہورمیں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا اجلاس ہوا۔ اجلاس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرنے کے لئے حکومت کے اتحادیوں سے رابطے کیے جائیں گے۔موجودہ حکومت ایک اقلیتی حکومت ہے لہٰذا اگر اتحادیوں کا ساتھ موجودہ نہ ہو تو عمران خان وزیر اعظم نہیں رہ سکتے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن صاحب نے فرمایا کہ وہ تحریک انصاف کے لوگوں سے رابطہ نہیں کریں گے، ہاں اگر کوئی تحریک انصاف کا رکن بذات خود پی ڈی ایم کے پاس آنا چاہتا ہے اوریہ سمجھتا ہے کہ عمران خان ناکام ہو چکے ہیں اور اسے پی ڈی ایم کا ساتھ دینا ہے تو ہم اس کو خوش آمدید کہیں گے۔
مولانا صاحب نے یہ بھی کہا کہ وہ کسی بھی دوسری جماعت کے رکن سے انفرادی رابطہ نہیں کریں۔ ہاں ان کے لیڈران سے ضرور بات چیت ہوگی۔ اگر ایک جماعت کا لیڈر کوئی فیصلہ کرتا ہے تو پھر ذمہ داری بھی اسی کے سر آئے گی۔ سیاست کے حوالے سے مشہور زمانہ کہاوت ہے کہ سیاست میں کچھ بھی ممکن ہوسکتا ہے۔ آج کے دشمن کل کے دوست اور کل کے دشمن آج کے دوست ہو سکتے ہیں۔
اگر سولہ سال کے بعد شہباز شریف چوہدری صاحبان کے گھر تشریف لے گئے تو یہ سیاست کا ہی کمال ہے۔ بظاہر بتایا گیا ہے کہ وہ چوہدری شجاعت صاحب کی عیادت کے لیے گئے ہیں۔ چوہدری صاحب گزشتہ کئی مہینوں سے بیمار ہیں لیکن سب کو اس بات کا علم ہے کہ اصل مقصد ان کے گھر جانے کا یہی تھا کہ چوہدری صاحبان کی مدد لی جائے تاکہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنایا جائے۔
پنجاب اسمبلی میں اس وقت سردار عثمان بزدار کی حکومت صرف اور صرف پاکستان مسلم لیگ (ق) کے گیارہ ووٹوں کی بدولت قائم ہے ۔ اگر آج چوہدری صاحبان پنجاب حکومت سے علیحدگی احتیار کر لیں تو تحریک انصاف کی حکومت تاش کے پتوں کے گھر کی مانند زمین بوس ہوجائے گی۔ اسی طرح وفاق میں سے ق لیگ اگراپنے پانچ ارکانِ اسمبلی کی سپورٹ حکومت سے ہٹا لیتی ہے تو ادھر بھی حالات کچھ مختلف نہیں ہونگے۔
شہرِ اقتدار میں آج کل سب زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہ کہ اگر پی ڈی ایم کے پاس مطلوبہ تعداد میں ممبرز موجود نہیں ہیںتو کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر اتنا ہنگامہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ہر طرف ایک ہی بات چل رہی ہے کہ حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے یا پھر اس کے مقاصد کچھ اور ہیں۔ اور اگر یہ کوشش سنجیدہ ہے تو کتنی سنجیدہ؟۔ اب ظاہر ہے عمران خان کی حکومت کو اگر گھر بھیجوانا ہے تو قومی اسمبلی میں 172 ارکان کی حاضری کو یقینی بنانا ہوگا۔
اس عددی اکثریت کو پورا کرنے کے لئے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو حکومتی اتحادیوں کی مدد کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن یہ بھی دعویٰ کرتی ہے کہ پی ٹی آئی کے 20 سے 22 لوگ اس وقت ان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور وہ اس شرط پر اپوزیشن کا ساتھ دینا چاہتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں پنجاب کے مختلف حلقوں میں ن لیگ ان کو ٹکٹ دے گی۔
اس حوالے سے بھی قانونی ماہرین کے مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔ کیا یہ لوگ پرائم منسٹر عمران خان کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں؟ کیونکہ آئین پاکستان کے تحت آپ اگر کسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں تو اس پارٹی کی مرضی کے خلاف قومی اسمبلی میں ووٹ نہیں دے سکتے۔ خاص طور پر پرائم منسٹر کے انتخاب کے موقع پر ۔ اس کے ساتھ ساتھ ساتھ اگر پارلیمان کے اندر آئینی ترمیم ہونی ہے، بجٹ کے حوالے سے بھی آپ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتے۔ اگر کوئی ممبر ایسا کرتا ہے تو وہ اپنی سیٹ کھو بیٹھتا ہے۔ اس لیے فی الوقت تو یہ تحریک عدم اعتماد والا معاملہ بہت ہی پیچیدہ لگ رہا ہے۔ اس سارے قصے کو اگر سامنے رکھیں تو ایسا لگتا ہے پی ڈی ایم کی طرف سے تحریک عدم اعتماد کے اعلان کے پیچھے محرکات کچھ اور ہی ہیں۔
ذرائع کے مطابق ایک وجہ تو صاف سمجھ آتی ہے کہ حکومت کے خلاف دباؤ بڑھایا جائے تاکہ جن کو پاکستانی سیاست میں مقتدر کہا جاتا ہے وہ دباؤ میں آ جائیں اور وہ اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھیں ۔ ظاہر ہے یہ ایک بہت مشکل معاملہ ہے وہ بھی ایسے موقع پر جب اگلے سال عام انتخابات ہونے جارہے ہیں۔
اسی ہفتے خیبرپختونخوا میں کچھ حلقوں میں مزید بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں۔ دلچسپ طور پر ڈیرہ اسمٰعیل خان جو کہ مولانا فضل الرحمن کے اپنے گھر کا حلقہ ہے وہاں سے پی ٹی آئی نے مئیر کی سیٹ جیت لی ہے۔اسی سال مئی میں پنجاب کے اندر بلدیاتی انتخابات کے مرحلے کی بھی آمد آمد ہے۔ اس لیے کوئی بھی سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کے معاشی حالات کافی زیادہ دباؤ کا شکار ہیں۔ حکومتی کارکردگی پر بحث ہو سکتی ہے کہ وہ اچھی ہے یا بری۔ ظاہر ہے کورونا کی وجہ سے دنیا کے تمام چھوٹے بڑے ملک اس وقت مہنگائی کا شکار ہیں لیکن ایسے موقع پر جب افغانستان بدستور عدم استحکام کا شکار ہے۔ چار کروڑ افغانیوں کی ضروریات کا خیال بھی پاکستان کو رکھنا پڑ رہا ہے۔ ابھی ابھی عمران خان چین کا کامیاب دورہ کر کے آئے ہیں۔ اس ماہ کے آخر میں وہ روس جا رہے ہیں۔ تو کیونکر کوئی چاہے گا کہ ملک میں عدم استحکام پیدا ہو۔ زیادہ تر مبصرین جن سے اس بارے میں بات ہوئی ان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی کوشش ہے کہ بلدیاتی انتخابات سمیت آئندہ سال عام انتخابات تک حکومت پر دباؤ قائم رکھا جائے تاکہ حکومتی پارٹی سنبھل نہ سکے۔