فضل الرحمان، نواز شریف کا حکومت سے جلد از جلد قوم کو نجات دلانے پر اتفاق

Published On 05 March,2022 04:42 pm

لاہور: (دنیا نیوز) حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ اور امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان اور پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے۔

ذرائع کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر مشاورت، باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کی گئی۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں عدم اعتماد کی تحریک سے متعلق نمبر گیم پر اطمینان کا اظہار کیا اور ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان اور میاں نواز شریف نے موجودہ حکومت سے جلد از جلد قوم کو نجات دلانے پر اتفاق کیا۔

ذرائع کے مطابق دونوں رہنماؤں کے مابین وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے پلان کو عملی جامع پہنانے کے علاوہ ملکی، قومی امور پربھی مشاورت کی گئی۔

ذرائع کے مطابق حکومت مخالف اتحاد کے سربراہ نے سابق وزیراعظم کو اپوزیشن کی پیش قدمی کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا۔

خود رابطے کر رہا ہوں، تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی: آصف زرداری

ذرائع کے مطابق امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان کا سابق صدر آصف علی زداری سے ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے، دونوں رہنماؤں کے درمیان تحریک عدم اعتماد پر مشاورت کی گئی۔

ذرائع کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان تحریک عدم اعتماد کے لئے اپوزیشن کی نمبر گیم پر بات چیت اور عدم اعتماد کے لئے ممکنہ تاریخ کے تعین پر بھی مشاورت کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: خود رابطے کر رہا ہوں، تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی: آصف زرداری

ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری نے حکومتی اتحادی جماعتوں سے رابطوں کا بھی جائزہ لیا جبکہ پی ڈی ایم سربراہ نے آصفہ بھٹو زرداری کی خیریت دریافت کی اوران کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

دوسری طرف آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں یوسف رضا گیلانی، خورشد شاہ اور نوید قمر سے ملاقات کی ہے جس میں سابق صدر کو عدم اعتماد کی تیاریوں کے حوالے سے بریف کیا۔

اس موقع پر پی پی شریک چیئر مین کا کہنا تھا کہ عدم اعتماد کیلئے خود رابطے کر رہا ہوں، انشاللہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی،عمران خان کو ہٹائیں گے۔

تحریک عدم اعتماد

واضح رہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے گزشتہ ماہ 11فروری کو حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا تھا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے پی ڈی ایم اجلاس کے بعد اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ہم اس ناجائز حکمران کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائیں گے اور اس سلسلے میں حکومت کی حلیف جماعتوں سے بھی رابطے کریں گے کہ وہ اپنا اتحاد ختم کریں۔

تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے اکابرین کے درمیان اہم ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

گزشتہ ہفتے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سے ان کے ماڈل ٹاؤن میں واقع گھر پر ملاقات کی تھی جبکہ ان کے بڑے بھائی اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعےملاقات میں شرکت کی تھی۔

پی پی پی رہنماؤں کی آمد سے قبل مولانا فضل الرحمٰن نے بھی شہباز شریف سے علیحدہ ملاقات کی تھی جس میں دونوں رہنماؤں نے اراکین کی تعداد سے متعلق تفصیلی گفتگو کی گئی تھی۔

اپوزیشن کا اقدام کامیاب ہونے کی صورت میں پی پی پی چیئرمین بلاول پہلے ہی شریف خاندان کو وزارت عظمیٰ کی پیشکش کر چکے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا تھا کہ وزارت عظمیٰ ان کی پارٹی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ موجودہ حکومت کی برطرفی نئے انتخابات کی راہ ہموار کردے گی۔

نمبر گیم صورتحال

وزیر اعظم عمران خان كے خلاف ممكنہ تحریک عدم اعتماد كی كامیابی یا ناكامی كے امكانات جاننے كے لیے قومی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں كے اراكین یا حكومتی اور حزب اختلاف كی نشستوں كی تعداد معلوم ہونا بہت ضروری ہے۔

سال 2018 كے انتخابات كے نتیجے میں وجود میں آنے والی موجودہ قومی اسمبلی میں پاكستان تحریک انصاف عددی اعتبار سے سب سے بڑی قوت ہے، جس نے دوسری جماعتوں كی حمایت سے وفاقی حكومت بنا ركھی ہے۔

پاكستان میں وفاقی حكومت كو قومی اسمبلی میں تحریک انصاف كے 155 اراكین كے علاوہ مسلم لیگ ق 5، متحدہ قومی موومنٹ پاكستان 7، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس 3، عوامی مسلم لیگ 1، بلوچستان عوامی پارٹی 5، جمہوری وطن پارٹی 1  اور دو آزاد اراكین اسمبلی كی حمایت حاصل ہے۔

حكومتی اتحاد كے برعكس اپوزیشن كی نشستوں پر براجمان اراكین اسمبلی میں مسلم لیگ ن 84، پیپلز پارٹی 56، متحدہ مجلس عمل پاكستان 15، عوامی نیشنل پارٹی 1 ، بلوچستان نیشنل پارٹی 4  اور دو آزاد شامل ہیں۔

یوں 341 اراكین پر مشتمل قومی اسمبلی میں حكومتی جماعتوں سے تعلق ركھنے والے ایم این ایز كی تعداد 179 ہے، جبكہ 162 اراكین قومی اسمبلی اپوزیشن بینچز كا حصہ ہیں۔

Advertisement