اسلام آباد: (دنیا نیوز) متحدہ اپوزیشن کی طرف سے تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے کسی بھی صورت استعفی نہ دینے کے عزم کا اظہار کرتےہوئے کہا ہے کہ کسی کو غلط فہمی ہو سکتی ہے میں گھر بیٹھ جاؤں گا، ووٹنگ سے ایک دن پہلے اپوزیشن کو سرپرائز ملے گا۔
ان خیالات کا اظہار وزیراعظم عمران خان نے سینئر صحافیوں کے ساتھ ملاقات کے دوران کیا۔
صحافیوں کے ساتھ ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ نیوٹرل والی بات کا غلط مطلب لیا گیا، نیوٹرل والی بات اچھائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے تناظر میں کی، فضل الرحمان سیاست کا بارہواں کھلاڑی ہے، فضل الرحمان کے اب ٹیم سے باہر ہونے کا وقت ہو گیا ہے۔
فوج کو بدنام نہ کیا جائے
عمران خان کا کہنا تھا کہ سیاست کے لیے فوج کو بدنام نہ کیا جائے ، فوج نہ ہوتی تو ملک کے تین ٹکڑے ہوجاتے، مضبوط فوج ملک کی ضرورت ہے، فوج کو غلط تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ہمارے سرپرائز کارڈ ابھی باقی ہیں
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سرپرائز کارڈ ابھی باقی ہیں، اپوزیشن کو صبح معلوم ہو گا کہ ان کے کتنے لوگ انکے ساتھ نہیں ہیں ، شہباز شریف کے ساتھ بیٹھ کر اپنی توہین کروں، ہم نے حکومت میں ہوتے ہوئے ارکان کی خرید نہیں کی ، شہباز شریف کرپشن کا برینڈ ہے، نواز شریف نے صحافیوں کو لفافے دینا شروع کیا، نواز شریف پریس کانفرنس بھی نہیں کرسکتا تھا۔
عدم اعتماد میچ ہم جیتیں گے
وزیراعظم نے مزید کہا کہ عدم اعتماد والا میچ ہم جیتیں گے، کیا لڑائی سے پہلے ہاتھ کھڑے کردوں، کیا چوروں کے دبائو پر استعفی دے دوں۔ کسی صورت استعفی نہیں دوں گا، کسی غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ گھر بیٹھ جائوں گا، چودھری نثار سے 50 سال پرانا تعلق ہے۔ چودھری نثار سے ملاقات ہوئی ہے۔انہوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے۔ ن لیگ اور پی پی کی سیاست چوری اور چوری چھپانا ہے۔
ہمارے لوگوں کو پیسے کی آفر ہوئی
عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارے بہت سے لوگوں کو پیسے کی آفر ہوئی، پیشکش آنے کے بعد ہمارے بھی سارے ارکان کوپتہ چل گیا کیا ریٹ چل رہا ہے، 15ارب میں سب کو خرید سکتا تھا، کشمیر ،گلگت بلتستان سمیت تین صوبوں میں میری حکومت ہے، نواز شریف نے بینک لوٹ کر پیسہ بنایا، اپنے پہلے دور اقتدار میں نواز شریف نے من پسند بینک سربراہ لگائے، نواز شریف نے بینکوں سے قرض لے کر واپس نہیں کیا ، سابق وزیراعظم نے چوری کے پیسے سے ملیں لگا لیں، کیا آپ 20 لوگ خرید کر حکومت گرا دیں گے۔
قومی مجرموں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا
صحافی نے سوال کیا کہ آپ بلیک میل کیوں نہیں ہوتے؟ جس پر جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ مسئلہ میری ذات کا نہیں، اس لیے میں بلیک میل نہیں ہوتا، ہر حکمران جماعت سے لوگ ناراض ہوتے ہیں، وزیر نہ بن سکنے والوں کی ناراضی ہوتی ہے، 5 ورلڈ کپ کھیلا، 1992 میں کہا کہ اس بار جیت کر آئوں گا، پہلے بتا رہا ہوں عدم اعتماد والا میچ بھی جیتوں گا، قومی مجرموں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں ریفرنس اس لیے بھیجا کہ ووٹوں کی خرید و فروخت کو روکا جا سکے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی ویڈیو سامنے آئی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اب سپریم کورٹ کے سامنے سوال قانون سے آگے نکل چکا ہے۔عدالت جائزہ لے کیا پیسہ خرچ کر کے حکومت گرانا جمہوریت ہے؟
بیرونی طاقتیں چاہتی ہیں کٹھ پتلیوں کو اوپر لائیں
وزیراعظم نے کہا کہ تحریک انصاف کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے والی ہے۔ این آر او نہیں دوں گا۔ نہ صرف میرے ناراض کارکن واپس آچکے بلکہ نئے لوگ پارٹی جوائن کررہے ہیں۔ عوام بھی میرے ساتھ ہے۔ قوم دیکھ رہی ہے سب ڈاکو میرے خلاف اکھٹے ہوچکے ہیں۔ مجھے حکومت کے جانے یا نہ جانے کا اس لیے خوف نہیں میں نے چوری کرکے جائیدادیں نہیں بنائیں، اپنے گھر میں رہتا ہوں، گھر کا خرچہ خود اٹھاتا ہوں، میرا کوئی رشتہ دار حکومتی عہدے پر نہیں۔ بیرونی طاقتیں چاہتی ہیں کٹھ پتلیوں کو اوپر لائیں کیونکہ چور سر اٹھا کر بات نہیں کر سکتا۔ جن کا پیسہ باہر پڑا ہو، اس کو مینج کرنا آسان ہوتا ہے۔
عدم اعتماد
خیال رہے کہ اپوزیشن نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرا رکھی ہے، تحریک عدم اعتماد سے متعلق کارروائی کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں کا اجلاس 25 مارچ، 2022 بروز جمعہ دن 11 بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں طلب کیا ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد سے ملک میں سیاسی درجہ حرارت میں کافی اضافہ دیکھا جا رہا ہے، حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماؤں کی جانب سے تند و تیز سیاسی بیانات دیے جانے کا سلسلہ جاری ہے اور ہر ایک فریق تحریک عدم اعتماد کی کارروائی میں کامیابی کے دعوے کرتا نظر آرہا ہے۔
نمبر گیمواضح رہے کہ 8 مارچ کو اپوزیشن ارکان نے اسپیکر آفس میں وزیراعظم کیخلاف تحریک جمع کرائی ہے۔ تحریک قومی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت سے منظور ہو جانے پر وزیر اعظم اپنے عہدے پر فائز نہیں رہ سکیں گے۔ اس وقت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 172 ووٹ درکار ہیں۔
متحدہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے اتحادی جماعتوں کے ممبران اسمبلی کونشانے پر رکھے ہوئے ہیں۔ اگر اپوزیشن حکومتی اتحادیوں جماعتوں کے 10 ارکان لینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو تحریک کامیاب ہو جائے گی۔
قومی اسمبلی میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کو اتحادیوں سمیت 178 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ ان اراکین میں پاکستان تحریک انصاف کے 155 اراکین، ایم کیو ایم کے 7، بی اے پی کے 5، مسلم لیگ ق کے بھی 5 اراکین، جی ڈی اے کے 3 اور عوامی مسلم لیگ کے ایک رکن حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔
حزب اختلاف کے کل اراکین کی تعداد 162 ہے۔ ان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے 84، پاکستان پیپلز پارٹی کے 57 اراکین، متحدہ مجلس عمل کے 15، بی این پی کے 4 جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک رکن شامل ہے۔
قومی اسمبلی میں چار آزاد امیدوار ہیں۔ آزاد امیدواروں میں این اے 48 شمالی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ، این 50 سے علی وزیر، این اے 218 میر پور خاص سے علی نواز شاہ، این اے 272 گوادر سے آزاد امیدوار میر محمد اسلم بھوتانی شامل ہیں۔
دو آزاد امیدوار اپوزیشن کے حمایت یافتہ ہیں جبکہ دو آزاد امیدواروں کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ حکومتی حمایت یافتہ ہیں۔