اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی کابینہ نے دھمکی آمیز خط کو چیئر مین سینیٹ ، چیف جسٹس سے شیئر کرنے کی منظوری دیدی۔
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوا۔ اجلاس وزیراعظم ہاؤس میں ہوا جس میں پرویز خٹک، شیریں مزاری، مراد سعید، شفقت محمود، شوکت ترین شریک و دیگر شریک ہوئے۔
ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ نے دھمکی آمیز خط سپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ اور چیف جسٹس آف پاکستان سے شئیر کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کے دروازے رات 12 بجے کھولنے کا حکم
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے غیرمعمولی سیاسی صورت حال کے پیش نظر تاریخ تبدیل ہوتے ہی رات 12 بجے دروازے کھولنے کا حکم جاری کردیا۔
علاوہ ازیں سپریم کورٹ کے عملے کو بھی رات بارہ بجے پہنچنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لاسکتی ہے۔
عدم اعتماد
خیال رہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے 8 مارچ کو وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی تھی جس پر قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس 25 مارچ اور دوسرا 28 مارچ کو طلب کیا گیا اور 3 اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ کا فیصلہ کیا گیا جس کا ایجنڈا بھی جاری کیا گیا۔
اسی دوران 27 مارچ کو اسلام آباد میں جلسہ عام سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے ایک خط لہرایا اور کہا کہ ملک میں باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی، میرے پاس خط ہے جو اس بات کا ثبوت ہے۔
پھر 31 مارچ کو قوم سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے مراسلے والے ملک کا ذکر کرتے ہوئے ’امریکا‘ کا نام لیا اور پھر غلطی کا احساس ہونے پر رکے اور کہا کہ نہیں باہر سے ملک کا نام مطلب کسی اور ملک سے باہر سے، البتہ بعد میں انہوں نے کھل کر کہا کہ خط امریکا میں تعینات ان کے سفیر نے بھیجا لیکن اس میں امریکا کا پیغام تھا۔
بعد ازاں اسی خط کو جواز بناکر ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے 3 اپریل کو وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں کرائی اور عدم اعتماد کی قرارداد کو ملک دشمنوں کی سازش قرار دے کر مسترد کردیا۔
3 اپریل کو ہی عمران خان کے خطاب کے بعد صدر عارف علوی نے قومی اسمبلی تحلیل کردی تاہم اپوزیشن نے اس سارے عمل کو غیر آئینی قرار دیا اور اسمبلی کے اندر ہی دھرنا دے دیا۔
قومی اسمبلی کی کارروائی پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا جس کی پانچ روز تک سماعت جاری رہی جس کے بعد 7 اپریل کو سپریم کورٹ نے 3 اپریل کے ڈپٹی اسپیکر اور صدر اور وزیراعظم کے تمام احکامات کالعدم قرار دے کر اسمبلی بحال کردی اور 9 اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکم دیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے اس اہم ترین کیس کی سماعت کی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل تھے۔