اسلام آباد:(دنیا نیوز) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان اور ان کی کابینہ کو ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا ہے۔
کیبنٹ ڈویژن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ روایت برقرار رہی، ایک اور وزیراعظم آئینی مدت پوری کیے بغیر رخصت ہوا،عمران خان 3 برس، 7 ماہ اور 22 دن عہدے پر رہے، تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائے گئے پہلے حکمران کا لیبل بھی لگ گیا۔
عمران بنی گالہ واپس، وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کامیاب
قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد 174 ووٹوں سے کامیاب ہوگئی ہے، ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد مراد کو پہنچی، عمران خان وزیراعظم ہاوس سے بنی گالہ لوٹ گئے۔
ایوان آئین اور قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے تحت نئے قائد ایوان کا انتخاب کرے گا۔ اس ضمن میں قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے باقاعدہ انتخابی شیڈول جاری کیا جائے گا، حکومتی اراکین سپیکر کی جانب سے استعفے کے اعلان کے بعد ایوان سے چلے گئے ۔
ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب 14 گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے قومی اسمبلی اجلاس میں عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ کے دوران صدارت پینل آف چیئرپرسن کے رکن سردار ایاز صادق نے کی۔
انہوں نے تمام ارکان کو عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ کے طریقہ کار سے آگاہ کیا جس کے بعد پانچ منٹ کے لئے گھنٹیاں بجائی گئیں۔ اراکین کے ایوان میں آنے کے بعد ہال کے داخلی دروازے بند کردیئے گئے اور اوپن ڈویژن کی بنیاد پر ووٹنگ کا عمل شروع کردیا گیا اس دوران تاریخ اور دن بدلنے سے ایک منٹ قبل پینل آف چیئرپرسن کے رکن ایاز صادق نے اجلاس چند منٹ کے لئے ملتوی کردیا جس کے بعد اجلاس کی کارروائی کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک، حدیث ، نعت رسول مقبولۖ اور قومی ترانہ سے کیا گیا جبکہ نیا ایجنڈا اراکین میں تقسیم کیا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں برسراقتدار آئی اور عمران خان نے 18 اگست 2018ء کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا۔ پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں میں ایم کیو ایم پاکستان، مسلم لیگ (ق)، عوامی مسلم لیگ، جی ڈی اے، بی اے پی اور بعض دیگر آزاد اراکین شامل تھے۔
عمران خان 3 سال 7 ماہ 21 دن تک وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے۔ عمران خان پارلیمانی تاریخ کے پہلے وزیراعظم ہیں جنہیں باقاعدہ آئینی طریقہ کار کے تحت عدم اعتماد کی قرارداد کے ذریعے اپنے عہدے سے ہٹایا گیا۔ اس سے قبل 1989ء میں بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی جو ناکام رہی اس کے بعد 2006ء میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف بھی اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام رہی۔
پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) ، جے یو آئی (ف)، اے این پی ، جمہوری وطن پارٹی سمیت دیگر جماعتوں اور آزاد اپوزیشن ارکان کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف 8 اپریل کو تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی گئی جس کے بعد حکومت کی اتحادی جماعتوں، بی اے پی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) کے بعض ارکان نے بھی اپوزیشن کے ساتھ تعاون کرنے کا عندیہ ظاہر کیا اس طرح وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد مجموعی طور پر 174 ووٹوں سے کامیاب ہوگئی۔
سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہو چکے ہیں اس طرح نئے سپیکر کے انتخاب کے لئے بھی قومی اسمبلی سیکرٹریٹ انتخابی شیڈول کا اعلان کرے گی اور قائد ایوان کے انتخاب سے پہلے نئے سپیکر کا انتخاب بھی کیا جائے گا۔
قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں اس طرح سپیکر کے ساتھ نئے ڈپٹی سپیکر کا بھی انتخاب آئین اور قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے قواعد کے تحت عمل میں لایا جائے گا۔
پی ٹی آئی کے مبینہ منحرف اراکین رانا قاسم نون، نور عالم خان، راجہ ریاض، وجیہہ اکرم، نزہت پٹھان، عامر لیاقت حسین، ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ، ریاض مزاری، طلال گوپانگ، باسط بخاری سمیت دیگر ارکان نے قرارداد کے حق میں ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
چوہدری شجاعت حسین کے صاحبزادہ اور مسلم لیگ (ق) کے رکن چوہدری سالک حسین نے بھی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور آخر تک ایوان میں موجود رہے۔