لاہور:(دنیا نیوز) ہائیکورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ق) کی اپیلیں خارج کرتے ہوئے فیصلہ سنایا ہے کہ وزارت اعلیٰ کے لئے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی ہی الیکشن کروائے گا۔
لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے ڈپٹی اسپیکر کو اختیارات دینے سے متعلق سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف پاکستان مسلم لیگ (ق) کی اپیلیں خارج کی ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز پاکستان مسلم لیگ ق نے ڈپٹی اسپیکر کو اختیارات واپس دینے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر پارٹی بن چکے ہیں، مسلم لیگ ن کو سپورٹ کر رہے ہیں، ڈپٹی اسپیکر کی زیر صدارت الیکشن صاف و شفاف نہیں ہو سکتا، ججز پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتے، عدالت ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے۔
پنجاب کا نیا وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی یا حمزہ شہباز، فیصلہ ہفتہ کو ہوگا
پنجاب کا نیا وزیر اعلیٰ کون ہو گا؟ فیصلہ ہفتے کو ہو جائے گا، چودھری پرویز الہٰی اور حمزہ شہباز کے درمیان مقابلہ ہو گا، ڈپٹی اسپیکر سردار دوست مزاری پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کریں گے۔
پنجاب اسمبلی کے کل ساڑھے گیارہ بجے ہونے والے کے اجلاس کا ایجنڈا جاری کردیا گیا ہے، اجلاس میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے لئے ووٹنگ ہو گی، آئین کے آرٹیکل 130 کے تحت قائد ایوان کا انتخاب ہو گا۔
نئے قائد ایوان کے انتخاب کے لئے پنجاب اسمبلی کا اجلاس 16 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر سردار دوست مزاری کی زیر صدارت ہو گا، اجلاس میں یک نکاتی ایجنڈ ے کے تحت وزیراعلیٰ کا انتخاب ہوگا، تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق پر مشتمل حکومتی اتحاد کے وزیراعلیٰ کے لئے امیدوار چودھری پرویز ا لٰہی اور متحدہ اپوزیشن کے امیدوار حمزہ شہباز کے درمیان مقابلہ ہو گا۔
پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے 183 اور مسلم لیگ ق کے 10 ارکان ہیں، حکومتی اتحاد کو مسلم لیگ ن کے پانچ منحرف ارکان کی حمایت بھی حاصل ہے، حکومتی اتحاد کا دعویٰ ہے کہ انہیں 189 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے 24 سے زائد ارکان پنجاب اسمبلی منحرف ہوکر اپوزیشن سے مل چکے ہیں، ترین گروپ،علیم خان اور اسد کھوکھر اپنے حامیوں کے ساتھ حمزہ شہباز کی حمایت کر چکے ہیں، تحریک انصاف منحرف ارکان کے خلاف اسپیکر کے پاس ریفرنس جمع کراچکی ہے۔
مسلم لیگ ن کے پنجاب اسمبلی میں 165 ارکان اور پیپلزپارٹی کے 7 ارکان ہیں، راہ حق پارٹی کا ایک رکن اور 4 آزاد ارکان بھی حمزہ شہباز کے حمایتی ہیں، مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے کہ اسے 202 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
کامیاب امیدوار کو کم از کم 186 ووٹ حاصل کرنا ہوں گے، اگر کوئی امیدوار 186 ووٹ حاصل نہ کرسکا تو سیکنڈ رن ہو گا، سیکنڈ رن میں سادہ اکثریت حاصل کرنے والا قائد ایوان ہو گا۔
پنجاب اسمبلی کے ایوان میں اوپن ووٹنگ سے فیصلہ ہوگا، منحرف ارکان کے ووٹنگ کے معاملے میں ہنگامہ آرائی کا بھی خدشہ ہے۔