اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم شہبازشریف نے اتحادی جماعتوں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کو منانے کی کوشش تیز کر دی۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف کی ایم کیو ایم اور بی اے پی کے قائدین سے رابطہ ہوا ہے ۔ ایم کیو ایم نے وزیراعظم سے معاہدے پر مکمل عملدرآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ اگر تحریری معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو ہم اپنے فیصلے میں آزاد ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کا وفاقی حکومت سے ایک اور وزارت کا مطالبہ کیا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی نے حکومت سے علیحدگی سے متعلق فیصلے پر اہم اجلاس رواں ہفتے طلب کر رکھا ہے۔
تینوں اتحادی جماعتوں میں سے کسی کے بھی علیحدگی ہونے سے وفاقی حکومت اکثریت ختم ہوجائے گی۔
آئی ایم ایف سے جلد 2 ارب ڈالر مل جائیں گے،وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ خود انحصاری ہی قوم کی سیاسی اور معاشی آزادی کی ضمانت ہے، سابق حکومت نے بجلی کی پیداوار کے منصوبوں میں تاخیر اور گیس کے سستے اور طویل المدتی معاہدے نہ کر کے ملک کو نقصان پہنچایا، سپر ٹیکس کا پیسہ ضائع نہیں ہونے دیں گے، ریئل اسٹیٹ ملک کا حصہ ہے لیکن سٹے بازی نہیں ہونی چاہئے، زراعت کے شعبہ کی ترقی کیلئے کسانوں کو سہولیات دی جائیں گی، سرخ فیتے ، پرمٹ، این او سی، دفاتر اور سفارش کا چکر اب ختم ہونا چاہئے، افغانستان سے کوئلے کی درآمد سے سالانہ دو ارب ڈالر کی بچت ہوگی، آئی ایم ایف سے جلد 2 ارب ڈالر مل جائیں گے۔
انہوں نے ان خیالات کا اظہار منگل کو یہاں ”ٹرن ارائونڈ پاکستان” کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس میں وفاقی وزرا ، ارکان پارلیمنٹ ، معاشی ماہرین اور کاروباری شخصیات نے شرکت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ خود انحصاری اصل منزل ہے، مخلوط حکومت میں چاروں صوبوں کی نمائندگی ہے اور مشاورت سے فیصلے کئے جائیں تو انہیں تقویت ملتی ہے۔ ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کا چیلنج سب نے مل کر قبول کیا ہے، اس ذمہ داری کو ہم نبھائیں گے، آئی ایم ایف سے جلد 2 ارب ڈالر مل جائیں گے، خودانحصاری ہی کسی قوم کی سیاسی اور معاشی آزادی کی ضمانت ہوتی ہے اس کے بغیر کوئی قوم آزادنہ فیصلے نہیں کرسکتی۔ بنگلہ دیش نے آئی ایم ایف، عالمی بینک اور کسی دوسرے مالیاتی ادارے کی مدد کے بغیر 6 ارب ڈالر کا بنیادی ڈھانچے کا ایک بڑا منصوبہ بنایا ہے۔ 75 سال میں پاکستان بہت پیچھے رہ گیا ، پاکستان میں وسائل اور باصلاحیت افراد کی کمی نہیں ہے، تجارت ، معیشت ، سیاست ، سفارتکاری اور صحافت تمام شعبوں میں قابل افراد موجود ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، ریکوڈک میں ارب ڈالر کا خزانہ دفن ہے لیکن ابھی تک ہم نے اس سے ایک پائی نہیں کمائی الٹا مقدموں پر اربوں روپے ضائع کر دیئے گئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ایک نیوکلیئر طاقت ہے اور یہ ایٹمی صلاحیت ہمارے دفاع کیلئے ہے، کسی کے خلاف جارحیت کیلئے نہیں اور اس صلاحیت نے ہمارے دفاع کو مضبوط بنایا ہے۔ ملک آج قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، ترقی اور خوشحالی کا مقام حاصل نہ کرنے پر افسوس ہے۔ ماضی میں درست فیصلے نہیں کئے گئے جس کا ملک کو نقصان ہوا، حویلی بہادر شاہ ٹو 1250 میگاواٹ کا بجلی کی پیداوار کا منصوبہ ہے۔ یہ دو اڑھائی سال پہلے مکمل ہو جانا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے جدید ٹیکنالوجی کا یہ منصوبہ آج تک پیداوار نہیں دے سکا، اس تاخیر کی وجہ سے نہ صرف اس کے اخراجات بڑھ گئے بلکہ بجلی کی پیداوار شروع نہ ہونے سے ملک کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے دور میں امریکی کی کمپنی جی ای نے تین اور منصوبے لگائے اور ان سے پیداوار شروع ہو گئی تھی لیکن آج گیس نہ ہونے کی وجہ سے پوری گنجائش کے مطابق بجلی پیدا نہیں کرسکتے۔ دنیا میں جو بحران آیا اس کی وجہ سے توانائی کی قلت پیدا ہوگئی ہے، سابق حکومت نے گیس کے سستے اور طویل المدتی معاہدے نہیں کئے ، نواز شریف دور میں گیس کی درآمد کا 13 ڈالر پر معاہدہ ہوا تھا اس پر بہت تنقید کی گئی، میڈیا میں بھی اس کو اچھالا گیا لیکن جب سپاٹ مارکیٹ تین ڈالر پر آئی تو نہ تو سپاٹ پر ایل این جی منگوائی گئی اور نہ ہی طویل المدتی معاہدے کئے گئے ، اب گیس دستیاب ہی نہیں ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ دنیا میں کوئلے کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے جنکوز سے بجلی کی پیداوار شروع کرانا پڑی جو 60 روپے فی یونٹ پر بجلی بناتے ہیں، اگر 1250 میگاواٹ بجلی کا ہمارا منصوبہ مکمل ہو چکا ہوتا تو پھر یہ مہنگی بجلی نہ بنانا پڑتی۔ اب جولائی سے افغانستان سے کوئلے کی درآمد شروع ہو جائے گی جس سے ایک سال میں دو ارب ڈالر کی بچت ہوگی اور کوئلے کی درآمد بھی روپے میں ہو گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ گوادر کا انہوں نے دوسرا دورہ کیا ہے وہاں پر امدادی رقم سے ایک ہسپتال زیر تعمیر ہے اس کااب تک صرف 38 فیصد کام ہوا ہے ۔ اسی طرح گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ بھی تاخیر کا شکار ہے، گوادر کو پولان ایران سے بجلی کی فراہمی کیلئے ایرانی حکومت نے سرحد تک ٹرانسمیشن لائن اور گرڈ سٹیشن قائم کردیا ہے، پانچ سال گزر گئے پاکستان میں 26 کلومیٹر طویل ٹرانسمیشن لائن نہیں بچھائی جا سکی ، اس تاخیر پر بلوچستان کے عوام کا احتجاج برحق ہے، گوادر میں پینے کے پانی کی سہولت بھی فراہم نہیں کی گئی لیکن موجودہ حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں ستمبر تک پائپ لائن تبدیل کر کے پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ چند ہفتے پہلے خوردنی تیل کی قلت کا سامنا تھا، انڈونیشیا کے صدر سے خوردنی تیل کی درآمد کیلئے فون پر بات کی ، دوست ممالک سے بھی ان کے ساتھ رابطہ کرایا جبکہ وفاقی وزیر صنعت اپنے ذاتی خرچ پر انڈونیشیا گئے اور خوردنی تیل کی پاکستان کو درآمد شروع ہونے تک وہاں موجود رہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہم مشکلات میں گھیرے ہوئے ہیں، سب کی ذمہ داری ہے کہ معیشت کو ٹھیک کریں، بحیثیت قوم ذاتی پسند نا پسند سے بالا تر ہو کر کام کرنا ہوگا، ملک کی تقدیر بدلنے کیلئے ایسے فیصلے کرنا ہوں گے کہ کوئی انہیں بعد میں آ کے تبدیل نہ کر سکے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ زراعت کے شعبہ کی ترقی کیلئے کسانوں کو سہولیات دی جائیں گی، برآمدات میں اضافہ ، درآمدات میں کمی ، زراعت اور زراعت پر مبنی صنعتوں کی ترقی اور خودانحصاری کا حصول حکومت کی اولین ترجیحات ہے، 14 ماہ میں ہم ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے بھرپور اقدامات کریں گے۔ چین نے پاکستان کو مالی معاونت فراہم کی ہے اور اس نے سخت شرائط بھی نہیں لگائیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے معیشت کی بہتری اور مہنگائی میں کمی کیلئے سپر ٹیکس کا جو فیصلہ کیا ہے اس کو اکثریت نے قبول کیا ہے، اس سے 230 ارب روپے جمع ہوں گے لیکن یہ پیسہ دفتری اور سرکاری اخراجات پر نہیں بلکہ معیشت کی ترقی ، خوشحالی ، برآمدات اور سرمایہ کاری بڑھانے پر خرچ کیا جائے گا، اس حوالے سے جلد منصوبوں کا اعلان کریں گے، سپر ٹیکس کا پیسہ ضائع نہیں ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ریئل اسٹیٹ ملک کا حصہ ہے لیکن سٹے بازی نہیں ہونی چاہئے، اگر تعمیری کام ہو گا تو حکومت تعاون کرے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ کانفرنس کے شرکا ہمیں بتائیں کہ سرخ فیتے کی رکاوٹوں کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے، ہم اسے ایک ماہ میں ختم کریں گے۔ اس کے علاوہ پرمٹ ، این او سی ، سفارش اور دفتروں کے چکر ختم ہونے چاہئیں۔ اگر اس سلسلے میں کانفرنس ہماری رہنمائی کرے گی تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی ۔
شہباز شریف نے کہا کہ چیلنج بہت بڑے ہیں لیکن ہم سب مل کر ملک کو بحران سے نکالیں گے، سبز باغ دیکھانے کا قائل نہیں ہوں، 14 مہینے میں اقتصادی خوشحالی لائیں گے لیکن یہ اقتصادی خوشحالی سیاسی استحکام سے جڑی ہے اور سیاسی استحکام لانے کیلئے سب کو تعاون کرنا چاہئے اس سے قوم کو بے پناہ فائدہ ہوگا، کام کرنے کی نیت ہو تو راستے خود بخود بن جاتے ہیں، آنے والی نسلوں کے لئے ہمیں بہتر پاکستان دینا ہوگا۔ کانفرنس میں دی جانے والی تجاویز پر عمل کریں گے۔