اسلام آباد: (محمد عادل) پنجاب کی پگ پرویزالٰہی کے سر سج گئی ہے۔ اب مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومت صرف اسلام آبادتک محدود ہوگئی ہے۔اس وقت ملکی حالات سمجھ سے بالاتر ہیں ۔مفادات نے سیاست نہیں خاندان بھی تقسیم کردیئے ہیں،چودھری شجاعت کے خط کے باوجود پرویز الٰہی وزیراعلیٰ تو بن گئے لیکن بحران تھمتا ہوا نظر نہیں آتا،حکومتی اتحادی عدالتی فیصلوں پر ناخوش ہیں۔ پرویزالٰہی کی درخواست پر سماعت پر پہلے عدالتی بینچ پر عدم اعتماد کیاپھر بائیکاٹ،فیصلے سے پارٹی قیادت کے اختیارات محدود ہوگئے ہیں جو آنے والے دنوں میں مزید سیاسی معاملات میں بگاڑ کا سبب بن سکتے ہیں ۔عمران خان کا تختہ الٹنے والا سیاسی اتحاد تذبذب کا شکار ہے۔ جنہوں نے مزاحمت کا بیانیہ چھوڑ کرمفاہمت کی اب پریشان ہیں،گیم پلان کی تبدیلی پر حکومتی اتحادیوں میں اشتعال پھیل رہا ہے ،لب ولہجہ کی کاٹ بڑھ رہی ہے۔
مسلم لیگ ن کے اندر ایک بار پھر وفاقی حکومت چھوڑ کر سخت بیانیہ بنانے کیلئے شہبازشریف پر دباؤ بڑھ رہا ہے ۔ حکومت اور اتحادیوں کا خیال ہے کہ مشکل فیصلے اسی لئے تھے کہ مقررہ مدت پوری کی جائے گی۔ اب انہیں الیکشن کی طرف دھکیلا جارہا ہے ،اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت سیاسی ماحول اتحادی جماعتوں سے زیادہ عمران خان کے لئے سازگار ہے۔ اب خیال کیا جارہا ہے کہ فوری الیکشن ہوئے تو تحریک انصاف دوتہائی اکثریت حاصل کرسکتی ہے لیکن اس وقت عمران خان کو اگر کوئی خوف ہے تو وہ صرف الیکشن کمیشن کا ہے ۔ فارن فنڈنگ کیس کے متوقع فیصلے سے پریشان ہیں اس لئے وہ مسلسل الیکشن کمیشن پر دباؤ بڑھارہے ہیں۔
حکومت تبدیلی کے منصوبے کے ماسٹر مائنڈ آصف زرداری تھے ۔اب تک کی صورتحال میں ان کا کردار اہم رہا ۔ آصف زرداری نے حمزہ کو بچانے کیلئے جو سیاسی چال چلی تھی وہ عدلیہ کے فیصلے سے الٹ گئی ۔اس میں کوئی شک نہیں اب جو بھی اگلی حکمت عملی ہوگی وہ مفاہمت پر مبنی نہیں ہوگی ۔
سیاسی رسہ کشی نے ملک کو عدم استحکام کا شکار کردیا ہے۔ حالات تیزی سے خراب ہورہے ہیں، ایک دوسرے پر اعتماد کا فقدان ہے، اداروں میں بھی تقسیم گہری ہوتی نظر آرہی ہے ،نظریہ ضرورت نہیں آئین اور قانون کی پابندی اور پاسداری ضروری ہے۔ اقتصادی صورتحال تباہی کی طرف گامزن ہے، مسلسل غیر یقینی حالات کی وجہ سے روپیہ گراوٹ کا شکار ہے۔ سیاسی معاملات حل ہوتے نظر نہیں آتے ،انا اور ضد نے ملک کو اس حالت تک پہنچا دیا۔ایک طرف تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کی کچھ سینئر قیادت بات چیت بڑھانے کی خواہشمند ہے۔ سیاسی قیادت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ۔سیاسی اختلافات خود بیٹھ کرحل کرنے چاہئیں اور انتخابات کا راستہ نکالنا چاہئے ۔اگر زرداری اور شہباز سخت مخالف ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو گلے لگا سکتے ہیں اور پرویز الٰہی کو ڈاکو قرار دینے والے عمران خان اپنا وزیراعلیٰ بناسکتے ہیں تو ملک کی خاطر عمران، شہباز، زرداری اور مولانا فضل الرحمان ایک میز پر کیوں نہیں بیٹھ سکتے ،کسی اورکی سرپرستی میں بیٹھ کر اپنے مسائل کا حل نکالیں گے تو سیاست دان مزید کمزور اور غیرجمہوری قوتیں مزید مضبوط ہونگی۔
گرینڈ ڈائیلاگ وقت کی ضرورت ہے لیکن کوئی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں،صدر مملکت عارف علوی نے گزشتہ روز صحافیوں سے ملاقات میں ا س کا عندیہ تو دیا لیکن یہ بھی کہہ دیا کہ وہ بطور صدر کسی کو مذاکرات کا نہیں کہہ سکتے لیکن اگر تمام فریق تیارہوں تو ایوان صدر اپنا کردار ادا کرنے کو تیارہے ۔صدر ریاست کا نمائندہ ہوتا ہے ۔ عارف علوی نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اگر وہ خود مذاکرات کا کہیں گے تو شاید کوئی نہ مانے،اداروں اور آئینی عہدوں پر کام کرنے والی شخصیات کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہے ۔ان عہدوں اور اداروں کو پارٹی اور مفادات سے بالاتر ہوکر صرف ریاست کا وفادار ہونا چاہئے ،آئین اور قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہئے ۔اس وقت سیاست دانوں کا ایک جگہ بیٹھنا بہت ضروری ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو معاشرتی تقسیم بڑھتی جائے گی جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ معاشی بحران بھی بڑھے گا۔