لاہور: (سلمان غنی) وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالٰہی نے سابق وزیراعظم عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گلِ کی جانب سے سکیورٹی اداروں کے حوالے سے بیان پر اپنے ردعمل اور خصوصاً تحریک انصاف کو اس بیان سے فاصلہ ظاہر کرنے کی بات کرتے ہوئے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے اس ردعمل سے پتہ چلتا ہے کہ تحریک انصاف کے اتحادی ہونے کے باوجود وہ اداروں کے حوالے سے ان کی پالیسی کے حامی نہیں۔ چوہدری پرویزالٰہی نے اپنے ردعمل میں کہا کہ میں نے خود اس متنازعہ بیان پر انہیں ڈانٹا ہے اور کہا ہے کہ اداروں پر تنقید عقل کے فقدان کو ظاہر کرتی ہے اور خود میں اور سابق وزیراعظم عمران خان واضح کر چکے ہیں کہ پاکستانی افواج کے خلاف جانے والا پاکستانی نہیں ہو سکتا۔ دوسری جانب خود شہباز گل نے کچہری میں اپنی آمد پر کہا کہ میرے بیان میں ایسا کچھ نہیں کہ میں اس پر شرمندہ ہوں اور میں فوج سے پیار کرنے والا ہوں جبکہ میں نے کسی کو اکسانے کی کوشش نہیں کی ۔ خود تحریک انصاف کے بعض ذمہ داروں خصوصاً اسد عمر اورا سد قیصر کے بیانات سے بھی تحفظات ظاہر ہوتے ہیں۔
مذکورہ صورتحال سے ایک بات تو ظاہر ہوتی ہے کہ شہباز گل نے سکیورٹی اداروں کے حوالے سے اپنے بیان سے خود اپنی جماعت اور اتحادیوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے اور خصوصاً تحریک انصاف جو حکومت کے خلاف جارحانہ انداز اپنائے نظر آ رہی تھی اب دفاعی انداز میں کھڑی نظر آ رہی ہے۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو اس سے قبل خود سابق وزیراعظم عمران خان منتخب ایوان کے اندر سے آنے والی سیاسی اور آئینی تبدیلی کو ٹارگٹ کرتے ہوئے سیاسی مخالفین پر بیانات کی گولہ باری جاری رکھے ہوئے نظر آتے ہیں۔پاکستانی سیاست کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اینٹی امریکہ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ عوامی اور سیاسی سطح پر تو پذیرائی کا باعث بنتا ہے مگر مسند اقتدار پر آنے اور حکومتوں کے چلانے میں اس حوالے سے بڑی مشکلات آتی ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان اوران کی جماعت تحریک انصاف اقتدار میں کیسے آئی اور کیسے گئی یہ سب کچھ زیادہ ڈھکا چھپا نہیں لیکن اپنی نااہلی اور ناکامیوں کا ملبہ ریاستی اداروں پر ڈالنے کا طرز عمل اور پالیسی کبھی ایسا کرنے والوں کے حق میں نہیں گئی۔
سکیورٹی اداروں کے سیاسی کردار کو ہمیشہ ہی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا مگر ملکی سلامتی اور بقاء کیلئے مسلح افواج کے کردار بارے خصوصاً عوام میں ہمیشہ ان سے ایک جذباتی وابستگی رہی ہے اور عوام ان پر اس حوالے سے تنقید خواہ کسی بھی جماعت کی جانب سے ہو اسے اچھا نہیں سمجھتے۔ دیکھا جائے تو مسلح افواج نے ہمیشہ اندرونی وبیرونی خطرات سے ملک کادفاع کیاہے۔یہی وجہ ہے کہ بھارت کااس خطے میں طاقت کا توازن خراب کرنے کا خواب آج تک پورا نہیں ہو سکا۔
اب شہباز گل کے خلاف مقدمہ کو بھی قطعی طور پر آزادی اظہار کا مسئلہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ آئین وقانون قطعی طور پر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی فرد فوج جیسے ادارے کے اندر کے ڈسپلن پر اثر انداز ہو ۔ یقینا پاکستان کی سیاسی جماعتیں محب وطن ہیں اور خصوصاً تحریک انصاف تو اپنے اقتدار کے دوران’’ون پیج‘‘ کے سلوگن پر یہ ظاہر کرتی نظر آتی رہی ہے کہ ان کے فوج سمیت ریاستی اداروں کے اچھے اور مثالی تعلقات ہیں اور پھر کیا ہوا کہ اپنے ہی دوستوں اور محسنوں کے حوالے سے تحفظات ظاہر کرنا شروع کر دیئے۔ لہٰذا اب گیند خود تحریک انصاف کی لیڈر شپ کی کورٹ میں ہے اور انہیں واضح کرنا پڑے گا کہ وہ اس حوالے سے کہاں کھڑے ہیں
ویسے بھی تحریک انصاف نے یوم آزادی کے موقع پر عوامی طاقت کے مظاہرہ کا جو اعلان کررکھا تھا وہ اسلام آباد سے اب لاہور میں شفٹ ہو گیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان وہاں بڑا اعلان کریں گے۔
اور یہ ایک نادر موقع ہوگا کہ سابق وزیراعظم عمران خان ملک کے سکیورٹی اداروں کے حوالے سے اپنی جماعت کا موقف واضح کریں تاکہ اس حوالے سے پیدا شدہ تحفظات کا سدِباب ہو۔ ویسے بھی اس سے قبل بلوچستان میں فرض کی تکمیل کیلئے سرگرم ہیلی کاپٹر کو پیش آنے والے واقعہ کو بھی غلط رنگ پہنانے کی منظم کوشش ہوئی جس سے تاثر یہ قائم ہوا کہ اس مہم کے پیچھے بھی کچھ سیاسی عناصر ہیں۔ اب شہباز گل کی جانب سے آنے والے بیان نے بھی خود اپنی ہی جماعت کی ساکھ اور پالیسیوں بارے شکوک و شبہات پیدا کئے ہیں ،انہیں دور کرنا خود تحریک انصاف کی لیڈر شپ کی بھی ذمہ داری ہے۔