اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم محمد شہباز شریف نے سیلاب کی تباہ کاریوں سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے، ریلیف اور ریسکیو کیلئے عالمی برادری سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ افراد کو خوراک، ادویات، پانی اور دیگر اشیاء کی فوری ضرورت ہے، حالیہ سیلاب ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب ہے، ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، لوگوں کے گھر اور کھڑی فصلیں بہہ گئی ہیں، 3500 کلومیٹر سڑکیں اور بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو گیا ہے، حکومت ریلیف اور ریسکیو کیلئے محدود وسائل کے باوجود بھرپور اقدامات کر رہی ہے، متاثرین کی مدد کیلئے جمع شدہ رقم کی پائی پائی شفافیت سے خرچ ہو گی، آخری متاثرہ شخص کی بحالی تک اقدامات جاری رکھیں گے۔ عالمی برادری کو ہمارے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے، جوامداد ہمیں موصول ہورہی ہے اور جتنی کی ہمیں ضرورت ہے اس میں بہت زیادہ فرق ہے، ہمیں عالمی برادری سے زیادہ امداد کی ضرورت ہے۔
سیلابی صورتحال پر بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو 2010ء میں بھی سیلاب کا سامنا کرنا پڑا تھا تاہم حالیہ سیلاب ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب ہے، 2010ء کے سیلاب میں عالمی برادری کی طرف سے بھرپور مدد کی گئی، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے دوروں سے سیلاب کی تباہی کا اندازہ ہوا، یہ سیلابی تباہی موسمیاتی تبدیلیوں کا خطرناک نتیجہ ہے جس سے پاکستان بھی متاثر ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب سے لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے ہیں، 300 بچوں سمیت ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہیں، کھڑی فصلیں مکمل تباہ ہو گئی ہیں، سندھ میں کھجور، کپاس اور چاول کی فصل ختم ہو گئی ہے، یہی صورتحال بلوچستان میں بھی ہے، سیلاب سے متاثرہ افراد کو خوراک، پانی اور دیگر اشیاء کی فوری ضرورت ہے، وفاقی حکومت، صوبائی حکومتیں، این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم ایز اور مسلح افواج سیلاب سے متاثرہ افراد کی بھرپور مدد کر رہے ہیں تاکہ انہیں ریسکیو اور ریلیف مل سکے، ہزاروں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے، سیلاب متاثرین کے ریسکیو کیلئے ہیلی کاپٹرز اور کشتیوں کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ سیلابی صورتحال انتہائی تباہ کن ہے، سیلاب کے باعث گھمبیر صورتحال کے معیشت پر بھی اثرات مرتب ہوں گے، تباہ کن سیلاب سے 3 ہزار 5 سو کلومیٹر سڑکیں تباہ، سینکڑوں پل، فلائی اوورز اور انڈر پاسز بہہ گئے ہیں، کوئٹہ سمیت کئی شہروں میں بجلی کی سہولت بھی معطل ہو گئی، متاثرین کی مدد کیلئے وزراء اور سیکرٹریز متاثرہ علاقوں میں موجود ہیں، سکھر اور دیگر علاقوں میں بھی مواصلاتی ذرائع بند ہو گئے جنہیں بحال کیا جا رہا ہے، محدود وسائل کے باوجود ریلیف اور ریسکیو کیلئے تمام تر اقدامات کئے جا رہے ہیں، اس وقت ہمیں جس صورتحال کا سامنا ہے ایسی صورتحال اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھی، ریسکیو اور ریلیف کے بعد بحالی کا کام شروع ہو گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ سیلاب متاثرین کو ہنگامی بنیادوں پر اشیاء خوردونوش، ادویات اور خیمے مہیا کئے جا رہے ہیں، دنیا بھر میں اپنے دوستوں سے بھی تعاون کی اپیل کی ہے جس کا انہوں نے مثبت جواب دیا ہے اور چارٹرڈ طیارے امدادی سامان لے کر کراچی، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں پہنچ رہے ہیں، کچھ ملکوں نے ٹرین کے ذریعے بھی امدادی سامان بھجوانا شروع کر دیا ہے، اس سلسلہ میں استنبول سے تہران کے راستے امدادی سامان لے کر ٹرین پہنچ رہی ہے، دیگر ممالک مالی امداد اور سامان فراہم کر رہے ہیں۔ میڈیا کی جانب سے سیلاب کی منظر کشی سے امداد شروع ہوئی، بین الاقوامی برادری پاکستان کی مدد کر رہی ہے، سیلابی صورتحال میں بروقت رسپانس پر عالمی برادری کے مشکور ہیں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور مسلح افواج کی کوششوں سے درجنوں ہیلی کاپٹرز اور کشتیوں کے ذریعے بچوں، خواتین اور دیگر متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور آخری متاثرہ شخص کی آباد کاری تک ہمارے اقدامات جاری رہیں گے۔ ہم نے باہمی مشاورت سے مربوط ریلیف سرگرمیوں کیلئے نیشنل فلڈ رسپانس سنٹر قائم کر دیا ہے جو پی ڈی ایم ایز، ریسکیو اور ریلیف کے اقدامات کو مربوط بنانے اور امداد دینے والے ملکی و غیر ملکی اداروںکے ساتھ رابطہ برقرار رکھے گا۔ متاثرین کی مدد کیلئے جمع ہونے والی رقم کی پائی پائی شفافیت کے ساتھ خرچ کی جائے گی اور امدادی رقم مستحقین تک پہنچے گی، ہم ترقیاتی فنڈز کا رخ بھی بحالی کی سرگرمیوں کی طرف موڑیں گے، عالمی برادری، ترقی یافتہ ممالک اور بین الاقوامی ادارے اس مشکل گھری میں قومی تعمیر کے عمل میں ہماری مدد کریں۔
اُدھر وزیراعظم شہباز شریف نے عمران خان کو سیلاب اور معیشت کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بات چیت کی پیشکش کی ہے۔
عمران خان سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ملک کو مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے مل بیٹھیں۔ میں نے پارلیمان میں تقریر کے دوران چارٹر آف ڈیموکریسی کا ایک مخلص پروپروزل دیا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ ہمیں بیٹھ کر بات کرنی چاہیے کیونکہ حکومت تو آنی جانی ہے، مگر یہ قدم یہیں رہے گا۔ مگر یہ ایک کڑوا تجربہ تھا کہ ان کی یہ پیشکش غیرسنجیدگی سے لیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ آج ایک بار پھر وہ اپنی ساکھ کو داو پر لگاتے ہوئے یہی پیشکش کرتے ہیں۔آج بھی میں پیشکش کرتا ہوں کہ آئیں بیٹھیں اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک قومی انٹیگریٹی سے کام کریں۔ اورپھر دیکھیں کہ پاکستان کو اس مشکل سے متحد ہو کر نکالیں۔ آگے بڑھنے کا یہی راستہ ہے۔