لاہور: (ویب ڈیسک) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردوان کے ستمبر میں دورہ پاکستان کا خیرمقدم کریں گے۔ شدید بارشوں اور تباہی کی صورتحال کے پیش نظر دنیا کے تمام ممالک کے درمیان زیادہ سے زیادہ تعاون کی ضرورت ہے۔ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہیں جبکہ امریکا کے ساتھ ہم تعلقات بہتر کر رہے ہیں۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے موجودہ حکومت کی پالیسیاں عمران خان کی سابقہ حکومت کی پالیسیوں سے بہت ملتی جلتی ہیں۔
ترک خبر رساں ادارے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان سب کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے جیسا کہ دنیا معاشی بحران سے گزر رہی ہے، کسی پولرائزیشن اور کسی کیمپ کا حصہ بننے کا خواہاں نہیں ہیں۔ رجب طیب اردوان کے ستمبر میں دورہ پاکستان کا خیرمقدم کریں گے، پاکستان اور ترکیہ کے درمیان امت مسلمہ کا بہت گہرا اور دیرپا رشتہ ہے، حقیقی معنوں میں تو یہ 1400 سال پر محیط ہے لیکن ریاستی حیثیت کے لحاظ سے جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے یہ رشتہ عوام کی سطح پر ہے ، 1880 کی دہائی میں جب ترکیہ روس کی جنگ اور زلزلوں وغیرہ سے گزرا تو برصغیر کے مسلمانوں نے بھی فنڈز بنائے اور مختلف جنگوں میں ترکیہ عوام کے ساتھ لڑنے کے لئے لوگوں کو بھیجا ، قطع نظر اس کے کہ اقتدار میں کون آتا ہےدونوں ممالک کے درمیان گہرے افہام و تفہیم اور گہرے تعلقات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں جب بھی ترکیہ کے لوگوں سے ملا ہمیشہ ان سے متاثر ہوا، یہ بڑی حیرانی کی بات تھی کہ جیسے ہی کسی نے اپنی شناخت پاکستانی کے طور پر کی تو استنبول اور دوسرے شہروں کی سڑکوں پر محبت ہی محبت ملی، پاکستان اور ترکیہ کی یہ دوستی بہت گہری ہے،پاکستان اور ترکی کے صدور اور وزرائے اعظم ہمیشہ اس کا اظہار حقیقی معنوں میں کرتے ہیں۔
صدر نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ تعاون کرتے ہیں ، یہ تعاون آج بہت اہم ہے کیونکہ دنیا بدل رہی ہے، ہمیں ان رشتوں کو جوڑنے کی ضرورت ہے، نئے دور میں دنیا کو ایک نئے انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یوکرین جنگ کے دوران ترکیہ کے صدر اور وزیراعظم پاکستان نے امن کیلئے اہم کوشش کی کیونکہ ہم امن چاہتے ہیں ۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اور باہمی سرمایہ کاری کو مزید تقویت دینے کے لئے ہمیں نئے مواقع تلاش کرنے چاہئیں، ترکیہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے اس کی سٹرٹیجک اہمیت ہے، حقیقت یہ ہے کہ امت مسلمہ کی سوچ ایک ساتھ ہونی چاہئے، یہ ہمیشہ ہمارے ایجنڈے پر رہے گا، یہ حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات پاکستان اور ترکیہ کے لوگوں کے لئے اہم ہیں۔
پاکستان کے امریکا، چین اور روس کے ساتھ تعلقات اور روس سے تیل اور اناج کی خریداری سے متعلق سوال پر عارف علوی نے کہا کہ یہ فیصلہ حکومت کو کرنا ہے، پاک امریکا سمیت اپنے دیرینہ دوستوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے ،ہم چین کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کسی کے ہاتھ میں کھلونا نہیں بننا چاہتا، پاکستان آزاد ملک ہے، ہر ایک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں خاص طور پر اس وقت پاکستان اور ترکیہ سمیت پوری دنیا معاشی بحران سے گزر رہی ہے۔
صدر نے کہا کہ ہم نہیں جانتے مستقبل میں قوانین میں کس طرح ترمیم کی جائے گی اور آیا مستقبل میں بلاکس سے دنیا تقسیم ہو گی یا دنیا کو متحد ہو گی، ہم نے سرد جنگ ہوتے دیکھی ہے، ہم نے باہمی یقینی تباہی کے نظریہ پر عمل اس وقت دیکھا ہے جب دنیا بھر کے شہریوں کی محنت سے کمائے گئے کھربوں ڈالر سپرپاورز نے صرف ہتھیاروں کی تیاریوں پر خرچ کئے، یہ تصادم پچھلے 10 سالوں میں، کم ہوا ہے اور ہم امید کریں گے مستقبل میں نئے بلاکس کے درمیان مفاہمتیں ابھریں گی، طاقت کے نئے بلاکس کو فروغ دینا چاہئے اور اقدامات کے بارے میں سمجھوتہ کو فروغ ملنا چاہئے کیونکہ بڑھتی ہوئی موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں یہ دنیا کے لئے بھلائی ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے بعض علاقوں میں خشک سالی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں شدید بارشوں اور تباہی کی صورتحال کے پیش نظر دنیا کے تمام ممالک کے درمیان زیادہ سے زیادہ تعاون کی ضرورت ہے۔ چین اور امریکا پاکستان کے دیرینہ اور اچھے دوست ہیں، چین کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہیں جبکہ امریکا کے ساتھ ہم تعلقات بہتر کر رہے ہیں۔ پاکستان کے ترکیہ کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں، ہم اس وقت اس مقام پر ہے جہاں وہ دنیا میں امن کی توقع رکھتا ہے، ہمارا کردار پرامن ہونا چاہئے، ہمارا کردار افغانستان میں امن کی تلاش میں ہونا چاہئے کیونکہ یہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تعلقات اور سمندر تک سامان کی نقل و حمل کے لئے بہت ضروری ہے، یہ اقتصادی خوشحالی کا راستہ ہے، پاکستان سمیت تمام ممالک افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں۔
عارف علوی نے کہا کہ ہم چین کے گہرے دوست ہیں، ہمارے پاس چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی شراکت داری ہے جو ہمارے اقتصادی مفاد کے لئے بہت اہم ہے، پاکستان میں نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود ہے اور صرف چین ہی نہیں دنیا کو ہمارے افرادی وسائل میں دلچسپی ہے، دنیا ہمارے نوجوانوں کی آئی ٹی سیکٹر اور دیگر شعبوں میں صلاحیتوں سے استفادہ کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ جہاں تک دنیا کے آئی ٹی سیکٹر کا تعلق ہے تو اس شعبہ میں انسانی وسائل کی شدید کمی ہے، چین کے ساتھ ہمارا تعاون توانائی کی صورتحال، غربت کے خاتمے اور روزگار کے مواقع سمیت تمام شعبوں میں موجود ہے، چین پاکستان اقتصادی راہداری پاکستان کے راستے ان کے سامان کی نقل و حرکت کے لئے ہے جو چین کے سامان کو مغربی صوبوں سے سمندر تک، بیجنگ یا دیگر بندرگاہوں کے قریب لے جانے سے زیادہ آسان ہے، چین کے ساتھ ہمارا تعاون بہت مثبت رہا ہے اور یہ اسی طرح جاری رہے گا۔
صدر نے کہا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے لیکن کیا ہندوستان بھی امن چاہتا ہے اس کا مجھے یقین نہیں ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے اقدامات امن کے لئے ایک سنگین دھچکا تھے، بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تبدیلیوں کے ذریعے وہاں کی سیاست اور آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، یہ کشمیری عوام کے لئے بہت تکلیف دہ اقدام ہے ۔
انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہئے، بھارت یہ معاملہ خود ہی اقوام متحدہ میں لے گیا ورنہ کشمیر تقسیم برصغیر کے وقت سے ہی پاکستان کا حصہ ہوتا اور پاکستان نے دنیا کی نئی ابھرتی ہوئی تنظیم اقوام متحدہ کا احترام کیا لیکن پاکستان کو مایوسی ہوئی ہے،جہاں تک مقبوضہ کشمیر کا تعلق ہے بھارت نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ، یہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلاف کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ہم بھارتی بی جے پی کی سوچ کے ذریعے ہندوستانی مسلمانوں پر ہونے والے حملوں اور جس طرح سے ہندوستان میں مسلمانوں کو الگ تھلگ کیا جا رہا ہے، پر بھی فکر مند ہیں اور امت مسلمہ بھی اس کے بارے میں فکر مند ہے ، یہ ہمارے لئے،ترکیہ اور مسلم دنیا کے تمام ممالک کے لئے بھی تکلیف دہ بات ہے، ہم چاہتے ہیں اقلیتیں امن سے رہ سکیں،جب اقلیتوں کو گھیر لیا جاتا ہے یا مارا پیٹا جاتا ہے یا زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کی آواز کو دبایا جاتا ہے تو اس سے بدامنی پیدا ہوتی ہے، پاکستان دوسرے ممالک سے زیادہ فکر مند ہے کیونکہ ہم پڑوسی ہیں، بھارت میں کچھ بھی ہو جائے وہ آسان راستہ اختیار کرتا ہے اور پاکستان پر الزام لگاتا ہے۔
عارف نے کہا کہ گجرات کے فسادات سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں، پاکستان درحقیقت ان فسادات کی مذمت کرتا ہے، درحقیقت پاکستان دنیا کے تمام مسلمانوں کی آواز ہے، ترکیہ نے بھی مسلمانوں کیلئے آواز اٹھائی اور اس کا اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی )میں اہم کردار ہے۔ ہم بھارت کے ساتھ امن چاہتے ہیں لیکن بھارت کو بھی امن کی طرف قدم بڑھانا چاہئے، یہ کہہ کر کہ کشمیر پر بات نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ دو طرفہ معاملہ ہے، بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے موجودہ حکومت کی پالیسیاں عمران خان کی سابقہ حکومت کی پالیسیوں سے بہت ملتی جلتی ہیں۔ پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے، اس کا تعلق ہماری معیشت سے بھی ہے، اگر افغانستان میں امن ہے تو پاکستان افغانستان کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔پاکستان نے افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کے لئے اپنا کردار ادا کیا ہے اور میں افغانستان میں نئی حکومت پر یقین رکھتا ہوں، پاکستان کا ان کو مشورہ ہے کہ خواتین کی تعلیم کو بہتر بنائیں کیونکہ دنیا کی توجہ چند چیزوں پر ہے۔ بعض اوقات سیاسی پولرائزیشن انتہائی حد تک بڑھ جاتی ہے، میرا کردار اس سیاسی پولرائزیشن کو کم کرنے کی کوشش کرنا ہے، یہ ایک جمہوریت ہے ، پاکستان ایک جمہوریت ہے اور پاکستان آہستہ آہستہ ایک مضبوط جمہوریت بن رہا ہے، ہم ان آزمائشوں اور فتنوں سے گزر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آزاد میڈیا ہونے پر فخر ہے لیکن بعض اوقات حکومتوں کے کچھ اقدامات ایسی صورتحال پیدا کر دیتے ہیں کہ میڈیا سچ اور صحیح باتوں کی رپورٹنگ کرنے سے گھبرا جاتا ہے، اس شعبے میں بہتری کی ضرورت ہے، سوشل میڈیا ایک بڑا میڈیا ہے ، آج دنیا میں سوشل میڈیا پر بہت زیادہ حساسیت ہے ۔ پاکستان کا آئین چند چیزوں پر بہت واضح ہے، پاکستان کا آئین کہتا ہےکہ آپ عدلیہ اور مسلح افواج پر تنقید نہ کریں ، مسلح افواج پاکستان میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے زبردست کام کر رہی ہیں۔پاک فوج اور پاکستانی عوام ہی تھے جنہوں نے بہادری سے جنگ لڑی اور دہشت گردی کو شکست دی، ہم نے جزوی نقصان اٹھایا لیکن اس کا پاکستان پر کوئی اثر نہیں ہوا، فوج کا ایک زبردست تعاون تھا۔
صدر مملکت نے کہا کہ وزیر اعظم کے اس موقف سے اتفاق کرتا ہوں کہ پاکستان میں شدید بارشوں اور سیلاب سے بہت زیادہ نقصان ہوا ہے ،پاکستان کو بین الاقوامی مدد کی ضرورت ہے ، بین الاقوامی اداروں کو بنیادی ڈھانچہ کی بحالی اور مشکلات کے شکار ہزاروں لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے، موسمیاتی تبدیلی سے بہت سے ممالک متاثر ہوئے ہیں۔ پاکستان میں اقتصادی بہتری کے حوالے سے اقدامات کئے جا رہے ہیں ،ترکیہ کی طرح پاکستان بھی معاشی دباؤ میں ہے، یوکرین کی صورتحال سے عالمی تجارت میں خلل پڑاجس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑے۔پاکستان نے کورونا وبا کے دوران زبردست کام کیا۔