اسلام آباد: (دنیا نیوز،,ویب ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے کیس میں سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ 1947 سے آج تک سیاستدانوں کو کرپٹ قرار دیا گیا، ہر ایک ذمہ دار کا احتساب ہونا چاہئے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نیب قانون میں تبدیلی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
دورانِ سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین نیب واپس آنے والے ہیں ریفرنسز کو کہیں نہ بھیجیں تو بس بات ختم ہو جاتی ہے، اس پر پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان کے کیل خواجہ حارث نے کہا کہ جتنی تیزی سے ریفرنس واپس ہو رہے ہیں، کہیں اور نہیں جا رہے۔ رینٹل پاور کیس سمیت بڑے مقدمات ختم کر دیے گئے، حالیہ ترامیم کے ذریعے تیسرے فریق کے مالیاتی فائدے کو نیب دسترس سے باہر کر دیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اب بھی نیب قانون کو جانچنے کے لیے کسوٹی کی کھوج میں ہیں۔ نیب سے پوچھیں گے واپس آنے والے ریفرنس کہاں جا رہے ہیں۔ کیس کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہر ریجن میں کمیٹیاں بنا دی گئیں ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ممکن ہیں واپس آنے والے ریفرنس دوبارہ دائر ہوں یا کسی اور عدالت میں جائیں، ہر ایک ذمہ دار کا احتساب ہونا چاہیئے، ریفرنسز،ریکارڈ ،شواہد ،معلومات اور دستاویزات سب محفوظ ہونا چاہیئں، ہر چیز کی فہرست مرتب کر کے محفوظ کی جائے۔
دوران سماعت وکیل مخدوم علی خان نے اعتراض اٹھایا کہ نیب سارا ریکارڈ جمع نہیں کروارہا، نیب صرف احتساب عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں جمع کروا رہا ہے، احتساب عدالتوں کے فیصلوں پر اعلی عدلیہ نے کیا فیصلے کیے، بتایا نہیں جا رہا، نیب سپریم کورٹ سے جو چھپا رہا ہے وہ بہت اہم ہے۔
دوران سماعت جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ مخدوم علی خان بالاخر ثابت کریں گے قانون تو ہے لیکن سزا نہیں، اخبارات، دیگر حلقوں میں بات چلتی رہی ہے کچھ طبقات پر نیب پراسیکوشن نہیں ہونی چاہیے، ان طبقات میں کاروباری لوگ بھی ہیں، 1947 سے آج تک سیاستدانوں کو کرپٹ قرار دیا گیا، سپریم کورٹ کی کارروائی اس عمل کو بیلنس کرنے کیلئے ہے، لیکن یہ بحث پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم قانون ڈیزائن کرکے پارلیمنٹ کو کیسے بھیج سکتے ہیں؟ کل کوئی شہری آ جائے گا کہ دس روپے کرپشن پر بھی نیب تحقیقات کرے، یہ سلسلہ کہیں تو رکنا چاہیے، ہم پارلیمان کے امور میں کیوں اور کیسے مداخلت کر سکتے ہیں؟ نیب قانون کیا ہونا چاہیے؟ یہ سپریم کورٹ کیسے تعین کرسکتی ہے؟ آپ کی دلیل ہے کہ نیب قانون بدنیتی پر مشتمل ہے، ہم پارلیمنٹ کو قانون ڈیزائن کرکے کیسے دیں؟
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں پارلیمنٹ کو قانون ڈیزائن کرکے دیتی رہی ہے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے واپس ہونے والے نیب ریفرنسز کا ریکارڈ محفوظ بنانے کا حکم دیا اور ان تمام ریفرنس کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔ سپریم کورٹ نے ہدایت دی کہ تمام ریکارڈ کو ڈیجٹلائز بھی کیا جائے۔ مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
نیب ترامیم
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں اتحادی حکومت نے این اے او میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں لیکن صدر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائیڈ کیا گیا تھا۔
نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا۔
بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پروسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کر دی گئی ہے۔ قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا۔ مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی۔ بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔
مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے۔ بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔
چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیراعظم عمران خان نے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا اور وکیل خواجہ حارث کے توسط سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ حالیہ ترامیم صدر، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور وزرا کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات ختم کرنے اور سزا یافتہ سرکاری عہدیداران کو اپنی سزا واپس لینے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔
درخواست میں استدلال کیا گیا تھا کہ این اے او میں ترامیم پاکستان کے شہریوں کو قانون تک رسائی سے محروم کرنے کے مترادف ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کے تئیں اپنے فرائض کی خلاف ورزی کی صورت میں اپنے منتخب نمائندوں سے مؤثر طریقے سے پوچھ گچھ کر سکیں۔
مزید برآں درخواست میں دلیل دی گئی کہ لفظ بے نامدار کی دوبارہ تعریف کی گئی ہے، جس سے استغاثہ کے لیے کسی کو جائیداد کا فرضی مالک ثابت کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
اسی سے ایک متعلقہ پیش رفت میں سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے بدھ کے روز عمران خان کی جانب سے 4 جولائی کو دائر کی گئی ایک اور درخواست بھی واپس کر دی، جس میں الیکشن ایکٹ 2017 میں حالیہ ترامیم کو چیلنج کیا گیا تھا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو عام انتخابات میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق فراہم کرنے کا حکم دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
درخواست واپس کرتے ہوئے رجسٹرار آفس نے کہا کہ درخواست گزار نے خود تسلیم کیا ہے کہ یہ معاملہ زیریں فورمز میں زیر سماعت ہے۔
بعد ازاں جسٹس اعجاز الاحسن نے اعتراضات دور کرتے ہوئے کیس کو میرٹ پر سماعت کے لیے اعلیٰ عدلیہ کے بینچ کے سامنے مقرر کرنے کا حکم دیا تھا اور اس کے بعد سماعت کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا اور اس سے پہلے ایک سماعت کی گئی تھی۔