تھر:معدنیات سے بھرپور پانی سے محروم

Published On 31 October,2022 02:04 pm

لاہور: (خاور نیازی) یوں تو قدرت کی نعمتوں کادائرہ اس قدر وسیع ہے جنکا صحیح شمار ممکن ہی نہیں لیکن جہاں تک انسانی بقا اور زندگی کا تعلق ہے ،پانی ایک ایسی نعمت ہے جس کا براہ راست دارومدار انسانی زندگی سے جڑا ہے۔

پاکستان کے حوالے سے جب بھی پانی کی قلت کا ذکر ہوتا ہے تو ذہن میں سندھ کے ایک دور دراز صحرا تھر کا نام ذہن میں آتا ہے جہاں کاسب سے بڑا مسئلہ پینے کا پانی ہے۔ بارشوں کا نہ ہونا یا بہت کم ہونا یہاں پانی کی قلت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اٹھارہ لاکھ سے زیادہ آبادی والے تھر کا رقبہ 21ہزار مربع کلومیٹر سے کچھ زیادہ ہی ہے۔اس صحرا کی وسعت کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسکی حدود عمر کوٹ ، تھر پارکر،کھپرو، بدین ، سانگھڑ ، نواب شاہ ، خیر پور ، سکھر اور گھوٹکی سے مشرق کی جانب پنجاب کے علاقے چولستان تک پھیلی ہوئی ہیں۔جبکہ اس صحرا کے جنوب میں رن کچھ اور ہندوستان کا علاقہ واقع ہے۔

یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ اس صحرا کا صرف 15فیصد حصہ پاکستانی حدود میں جبکہ 85 فیصد حصہ ہندوستان میں واقع ہے۔ اس صحرا کا شمار دنیا کے چند بڑے صحراؤں میں ہوتا ہے۔اس صحرا کو یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ اس کا ایک بڑا حصہ سرسبز و شاداب بھی ہے۔اس صحرا کو ’’ دوست صحرا ‘‘ بھی کہتے ہیں۔کیونکہ ایک تو اس صحرا تک رسائی آسان ہے دوسرا اس علاقے کے لوگ نہ صرف انسان دوست ہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ ’’ جانور دوست ‘‘ بھی ہیں۔

پانی کی دستیابی یہاں کا سب سے بڑا مسئلہء چلا آ رہا ہے جسکی وجہ سے ہر سال قحط اور غذائی قلت جیسے مسائل کے باعث سیکڑوں بچے وقت سے پہلے فوت ہو جاتے ہیں۔عام طور پر یہاں پانی کے کنوئیں بنائے جاتے ہیں جو ہر گاؤں سے کچھ دوری پر واقع ہوتے ہیں جو اس گاؤں یا علاقے کی ضرورت کومدنظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ان کنوؤں سے گھر کے فرد قدیم طریقے سے بیل ، اونٹ یا گدھوں کے ذریعے پانی نکالتے ہیں۔

یہ کام گھر یا گھرانے کے مردوں کی ذمہ داری ہوتا ہے جبکہ اس پانی کو گھر تک پہنچانا خواتین کی ذمہ داریوں میں آ جاتا ہے لیکن کنوؤں کی کھدائی کا المیہ یہ ہے کہ ہر سال کنوؤں کی کھدائی کے دوران کئی کئی افراد کی ہلاکت کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔جس کی وجہ سے اگرچہ انتظامیہ نے پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن لوگ اس پابندی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کنوؤں کی کھدائی کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اب وقت کے ساتھ ساتھ ٹیوب ویلوں کے ذریعے بھی پانی نکالنے کا طریقہ رواج پاتا جا رہا ہے جس سے صدیوں پرانی خواتین کی سروں پر پانی بھرے گھڑے اور مٹکے لے کر قطار در قطار چلنے کی روایت دم توڑتی جا رہی ہے لیکن اس کے باوجود بھی تھرمیں پینے کے پانی کی قلت اور نایابی نہ صرف یہاں کے انسانوں کے لئے ایک مسئلہء بنا ہوا ہے بلکہ یہاں کے چرند پرند بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔

اس کے لئے آپ تھر کے کسی بھی گاؤں چلے جائیں آپ کو وہاں خوبصورت مور آزادانہ گھومتے نظر آئیں گے جو گھر گھر آ کر دانہ چگتے ہی واپس جنگلوں کا رخ لر لیتے ہیں۔ایسا ہی کچھ حال یہاں پرنیل گائے اور ہرنوں کا ہے۔جو آس پاس کے جنگلوں سے دانہ پانی ملنے کے بعد واپس جنگوں میں اپنے ٹھکانوں کا رخ کرتے ہیں۔

فیس بک اور ٹوئٹر استعمال کرنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ گزشتہ کئی سالوں سے تھر کے لوگ پانی کی کمی کا رونا روتے آ رہے ہیں۔اگر بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تھر کے 18لاکھ سے زائد لوگوں کو نظر انداز کر بھی دیا جائے تو تھر میں کھربوں ڈالر کی پوشیدہ معدنیات کو کیا تھر کو پانی دئیے بنا نکالا جا سکے گا ؟ پانی جو زندگی ہے ، تھر کے باسیوں کابنیادی حق ہے جو حکومت کے فرائض میں شامل ہے۔ اور پھر یہ کوئی ایسا ناممکن کام بھی نہیں۔

اب تک کیا ہوتا رہا؟

پانی کی قلت چونکہ بالآ خر قحط کا روپ دھار لیتی ہے جو ہر سال کئی جانوں کی ہلاکت کا باعث بنتی رہتی ہے ۔اسی لئے جب بھی تھرمیں پانی کی قلت اور قحط سالی پھوٹتی ہے تو صوبائی حکومت عوام کو طفل تسلیاں دینے کے لئے بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کر کے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی پوری کوشش کرتی ہے۔

چند سال پہلے جب تھر میں خشک سالی کے باعث معصوم بچوں سمیت متعدد جانوں کو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے تو حکام فخریہ انداز میں بار بار ساڑھے سات سو آر او پلانٹس کے منصوبوں کا تذکرہ کرتے نہ تھکتے اور لوگوں کو بار بار یہ نوید سناتے رہے کہ تھر میں اب پانی کی قلت کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا۔ اگرچہ ان منصوبوں پر آٹھ ارب روپے سے زائد رقم خرچ کی گئی جن میں سے اکثر غلط منصوبہ بندی اور عدم توجہی کے باعث بند پڑے ہیں۔بدقسمتی سے اس وقت اور بعد میں بھی ماہرین کی بار بارتنبیہ کے باوجود بھی کہ یہ منصوبہ تھر میں پانی کی قلت دور نہیں کر سکتا پر توجہ ہی نہ دی گئی۔

نگر پارکر صحرائے تھر کاوہ علاقہ ہے جو تھر میں پانی کی قلت سے سب سے زیادہ متاثر چلا آ رہا ہے۔ یہاں کے باسی جون اور جولائی میں تو پانی کی بوند بوند کو ترس جاتے ہیں کیونکہ جون اور جولائی میں یہاں پانی کا بحران شدت اختیار کر لیتا ہے۔جس سے ہر سال صرف انسانوں کی ہلاکتیں ہی نہیں بلکہ ایک بڑی تعداد قیمتی جانوروں کی بھی شامل ہوتی ہے۔

چنانچہ کچھ عرصہ پہلے حکومت کی طرف سے نگر پارکر میں دس ارب روپوں سے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر پانی کی قلت پر قابو پانے کی ایک نوید بھی سنائی گئی تھی لیکن بدقسمتی سے حسب روایت یہ منصوبہ بھی دیگر منصوبوں کی طرح وقت سے پہلے اپنی موت آپ کے مصداق تھر کے لوگوں کی مجبوریوں کا مذاق اڑا رہا ہے۔ حالانکہ ان دس سالوں کے دوران کئی بار بارشیں ہونے کے باوجود بھی غلط منصوبہ بندی کے تحت بنائے گئے ان ڈیموں میں سے ایک بھی مکمل طور پانی سے نہ بھر سکا۔ بحیثیت مجموعی ہمارا یہ المیہ رہا ہے کہ ہم ملکی وسائل کی اکثریت مراکز کی طرف جھونک دیتے ہیں۔

مرکز خواہ صوبائی سطح پر ہوں یا فیڈرل کی سطح پر۔ دور دراز علاقے یوں بھی ہماری ترجیحات سے باہر ہوتے ہیں جس کی لپیٹ میں تھر جیسے علاقے آ کر احساس محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت تھر کے بنیادی مسائل اور معاملہ کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اس دیرینہ مسئلہء کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرائے۔

خاور نیازی سابق بینکر اور لکھاری ہیں، قومی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک رہ چکے ہیں۔